پیر , 11 دسمبر 2023

طوفان الاقصیٰ، اسرائیل کا نائن الیون

(مرزا اشتیاق بیگ)

اسرائیل پر گزشتہ ہفتے ہونے والے حماس کے حملے کو اسرائیل کا 9/11 قرار دیا جارہا ہے اور دنیا یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی انٹیلی جنس اور ڈیفنس سسٹم کے حامل ملک اسرائیل کا ڈیفنس سسٹم کس طرح ناکام ہوا؟ اسرائیل کیلئے 7 اکتوبر کا دن ایک بھیانک خواب کی مانند تھا۔ ایسے کہ جب اسرائیلی شہری نیند کی آغوش میں تھے صبح سویرے اچانک ان پر ہزاروں راکٹوں کی بارش ہوگئی اور حماس کے جنگجوؤں نے غزہ سے اسرائیل کے حساس مقامات پر بیک وقت بری، بحری اور فضائی کارروائی کرکے اسرائیل سمیت پوری دنیا کو حیرت زدہ کردیا اور ایسا تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ یہ حملہ اتنا اچانک تھا کہ اسرائیلی فوجیوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ مل سکا اور اس کی فوج تتر بتر ہوگئی جس کے نتیجے میں اسرائیلی فوج کےبریگیڈ کمانڈر سمیت 900 سے زائد اسرائیلی ہلاک ہوگئے۔ حماس نے اسرائیل پر ہونے والے اس حملے کو ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ کا نام دیا اور حماس رہنما صالح العروی نے اس حملے کو غزہ اور فلسطین کے مقدس مقامات پر اسرائیلی ظلم کا ردعمل قرار دیا۔

حماس رہنما کا کہنا تھا کہ ان کی جنگ فلسطینی زمین اور مقدس مقامات کی آزادی تک جاری رہے گی۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ملک میں حالت جنگ کا اعلان کرتے ہوئے غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ یہ جنگ طویل عرصے تک جاری رہے گی۔ بعد ازاں اسرائیلی طیاروں نے غزہ کی سویلین آبادی پر بمباری کرکے 700 سے زائد فلسطینیوں کو شہید کردیا اور فضائی حملوں کا دائرہ کار لبنان تک پھیلادیا۔ موجودہ صورتحال میں غزہ کھلی جیل میں تبدیل ہوگیا ہے اور اسرائیلی حکومت نے غزہ کا مکمل محاصرہ کرکے پانی اور ایندھن کی سپلائی معطل کردی ہے۔موجودہ صورتحال میں حزب اللہ بھی شامل ہوگئی ہے جس نے لبنان سے کئی راکٹ اسرائیل پر فائر کئے ہیں۔ حزب اللہ ایران، عراق اور لبنان سمیت کئی ممالک میں سرگرم ہے اور ایسا لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں یہ ممالک بھی حماس اسرائیل تنازع میں شامل ہوسکتے ہیں جس سے یہ جنگ تیسری جنگ عظیم کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کے اتحادیوں امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور بھارت نے اسرائیل کی کھل کر حمایت کردی ہے اور امریکہ نے اسرائیل کی مدد کیلئے اپنا بحری بیڑہ ،بحری جنگی جہاز روانہ کردیئے ہیں اور امریکی وزیر دفاع نے اسرائیل کو یقین دلایا ہے کہ اسے مزید فوجی ساز و سامان فراہم کیا جائے گا جبکہ سعودی عرب، قطر، کویت اور یو اے ای نے حماس کی کارروائی کو اسرائیلی مظالم کا ردعمل قرار دیا ہے جبکہ ایران، شام، یمن اور افغانستان نے حماس کی کارروائی کا پرجوش خیر مقدم کیا ہے۔ افغان طالبان نے حماس کا ساتھ دینے کا اعلان کرتے ہوئے ایران سے راہداری کی اجازت مانگی ہے جبکہ روس اور پاکستان نے فلسطین اور اسرائیل دونوں سے جنگ بندی اور تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔

ایسے میں جب مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان قربت بڑھ رہی تھی اور دہائیوں کی کشیدگی ختم ہورہی تھی، کئی اسلامی ممالک اسرائیل کو تسلیم کرکے اپنے ملک میں اسرائیلی سفارتخانے کھول کر اپنے تعلقات استوار کررہے تھے۔ ایسی اطلاعات تھیں کہ بہت جلد سعودی عرب بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرلے گا۔اگر ان دونوں ممالک کی انڈر اسٹینڈنگ ہوجاتی تو 16 سے 17 اسلامی ممالک جن کی سعودی عرب مالی امداد کرتا رہتا ہے، ان میں سے اکثر ممالک اسرائیل سے تعلقات استوار کرلیتے۔ پاکستان کے بارے میں بھی ایسی اطلاعات تھیں کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات استوار ہونے کے بعد اگر پاکستان، اسرائیل سے تعلقات استوار نہیں بھی کرتا تو کم از کم اسرائیل اور اسرائیل کو تسلیم کرنے والے اسلامی ممالک کی مخالفت نہیں کرے گا مگر حماس کے حالیہ حملے نے ان ممالک کیلئے اسرائیل سے تعلقات میں گرمجوشی کو سرد مہری میں تبدیل کردیا ہے اور اسرائیل، عرب ممالک کے درمیان ہونے والی پیشرفت کو ہائی جیک کرلیا ہے۔

عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ اس طرح کے واقعات کے بعد خوشیاں محدود ہوتی ہیں مگر اس کا ردعمل آتا ہے تو بعض اوقات آپ کی توقع سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔گوکہ حماس کے اسرائیل پر حملے پر اسلامی ممالک کے عوام جشن منارہے ہیں مگر ان ممالک کی حکومتیں پریشانی سے دوچار ہیں کیونکہ حماس کے حملے نے ان کے امن عمل کو سبوتاژ کردیا ہے۔ اب ان ممالک کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ حماس اسرائیل جنگ میں کس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پاکستان کیلئے حماس اسرائیل جنگ خوش آئند نہیں جس کے باعث عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہے جس سے پاکستان کی معیشت متاثر ہوگی۔ پاکستان میں جہادی اور عسکریت پسند تنظیموں کے عناصر آج بھی موجود ہیں جو حماس، اسرائیل جنگ میں شمولیت کیلئے دوبارہ سرگرم ہوجائیں گے۔ نیکٹا کو چاہئے کہ وہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے فوری اجلاس طلب کرے۔

آج جب دنیا روس یوکرین جنگ سے پیدا شدہ صورتحال کے نتیجے میں تباہیوں اور معاشی مشکلات سے دوچار ہے، حماس اسرائیل جنگ نے صورتحال کو مزید گھمبیر بنادیا ہے۔ اگر یہ تنازع شدت اختیار کرتا ہے تو یہ تیسری عالمی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے، جس سے دنیا مزید تباہ حالی اور مشکلات کا شکار ہوجائے گی۔اس وقت دنیا میں مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر دو ایسے مسائل ہیں جن سے پوری دنیا میں عدم استحکام ہے اور ان کے حل کے بغیر دنیا میں امن ناممکن ہے۔او آئی سی کو چاہئے کہ وہ بلاتاخیر اجلاس طلب کرکے اپنے پلیٹ فارم سے حماس اسرائیل جنگ بندی کو ممکن بنائے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو باور کرائے کہ تنازع فلسطین کا منصفانہ حل ہی دنیا میں امن کا ضامن ہے۔بشکریہ جنگ نیوز

 

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …