(عابد قریشی)
اسرائیل فلسطین تنازعہ کوئی نئی بات نہیں۔ یہ پچھلے کم و بیش 75 سال سے آگ و خون کا ایک کھیل ہے جو جاری و ساری ہے۔ ایک طرف اسرائیلی ریاست ہے، جس نے اپنا ناجائز وجود برقرار رکھنے کے لیے فلسطین کے مظلوم اور نہتے عوام سے نہ صرف ان کا اپنا علاقہ ہی چھین رکھا ہے بلکہ انہیں اپنی ہی سر زمین پر زندگی گزارنا مشکل، تلخ اور ناممکن بنا دیا ہے۔ اسرائیل کی نظر ایک گریٹر اسرائیل بنانا اور مسلمانوں کے قبلہ اول اور القدس سے انہیں بے دخل کرنا اور اس کی حیثیت کو ختم کرنا ہے۔ اپنی اس حکمت عملی میں وہ برسوں سے بر سر پیکار ہے۔ اپنے ان مذموم مقاصد کے حصول میں اسے امریکہ اور مغربی ممالک کی مکمل آشیر باد، عملی مدد اور اعانت حاصل ہے۔اسے ہر طرح کا جدید اسلحہ با آسانی دستیاب ہے جس کا وہ وقتاً فوقتاً مظلوم اور نہتے فلسطینیوں پر آزادانہ استعمال بھی کرتا رہتا ہے۔
کس قدر دل کو دہلا دینے والے اور کربناک وہ مناظر ہوتے ہیں جب معصوم فلسطینی بچے ہاتھوں میں پتھر لئے اسرائیلی ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں پر پھینکتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ پتھر ان ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے اور وہ ہمہ وقت اِن گنوں، توپوں اور ٹینکوں کی زد میں ہیں، مگر پھر بھی ان کے جذبہ استقلال اور جذبہ حریت میں فرق نہیں پڑتا۔ وہ اپنے گھروں میں باعزت زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں کی اسرائیل نے اس طرح ناکہ بندی کر رکھی ہے کہ عملی طور یہ لوگ ایک بڑی جیل میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔اس غزہ کی پٹی میں رہنے والے بیس لاکھ سے زائد فلسطینیوں کا رابطہ بیرونی دنیا سے منقطع ہے۔ وہ سرنگیں نکال کر ہمسایہ ملک مصر تک رسائی حاصل کرتے ہیں اور بڑی مشکل سے خوراک اور میڈیسن حاصل کر پاتے ہیں۔ پوری دنیا یہ المناک تماشہ برسوں سے دیکھ رہی ہے مگر خاموش ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی براہ راست اس بھیانک کھیل کا حصہ ہیں۔ انسانی حقوق کی پاسداری کا راگ الاپنے والے ملک اور بین الاقوامی تنظیمیں بے بس اور مجبور نظر آتی ہیں۔ اسلامی ملک زیادہ تر دبے ہوئے،سہمے ہوئے اور خاموش بیٹھے ہیں۔ مسلم امّہ میں کوئی دم خم نہیں کہ وہ اسرائیلی بربریت اور سفاکیت کو قوت سے روکے۔ وہ تو زیادہ تر صرف زبانی جمع خرچ پر اکتفا کر رہے ہیں۔ اسلامی دنیا میں اس وقت سوائے ایران کے کوئی دیگر ملک شاید اپنے ان فلسطینی بھائیوں کی کسی بھی طرح کی عملی مدد کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عالم اسلام اس وقت ایک جاندار اور فعال قیادت سے محروم ہے۔ زیادہ تر مسلم ممالک امریکہ کے زیر اثر ہیں۔ پاکستان بھی انہی ممالک کی لسٹ میں ہے۔
جو ایک جوہری قوت ہونے کے باوصف مسلمانوں کی روشن امید تھا، وہ اپنے داخلی سیاسی اور معاشی بحران میں اس بری طرح جکڑا گیا ہے کہ وہ مدد کرنا تو دور کی بات ہے شاید کوئی موثر آواز بھی اپنے فلسطینی بھائیوں کے حق میں نہیں اٹھا سکتا کہ اس صورت میں IMF جس نے اہل پاکستان کا جینا دوبھر کر رکھا ہے وہ کسی بھی وقت اپنی امداد یا قرض روک کر ہمارے لئے مزید مشکلات کھڑی کر سکتا ہے۔ جب آپ کی معیشت ہی ادھار اور مانگے تانگے پر چل رہی ہو تو آپ کو کون آزادی سے بات کرنے اور کچھ عملی مدد کرنے کی مہلت اور اجازت دے گا۔بھارت نے ہماری اسی بدحالی کا فایدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے عرب دوستوں کو ہم سے کچھ دور کر دیا ہے،جو پاکستان کبھی عالم اسلام کی قیادت کا دعویٰ دار تھا وہ اب اپنی معاشی بدحالی کی بدولت کسی شمار قطار میں نہ ہے اور یہ فلسطین کے المیہ سے کچھ کم کربناک اور افسوس ناک نہیں ہے۔ابھی جو تازہ واقعات اس خطہ میں رونما ہو رہے ہیں اور جس طرح حماس نے بڑے منظم طریقہ سے اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کو مات دے کے اسرائیل کے اندر گھس کر کارروائی کی اور تاریخ میں پہلی مرتبہ اسرائیل کا بھاری جانی اور مالی نقصان کیا۔ وہ تار یخ کے صفحات میں بہادری، شجاعت اور جرات کی انمول داستانوں کی طرح زندہ رہے گا۔ اب اس کے جواب میں اسرائیل جو ظلم اور بربریت نہتے اور مظلوم فلسطینیوں پر جن میں زیادہ تعداد بچوں اور عورتوں کی ہے پر ڈھا رہا ہے وہ دلوں کو چھلنی کر رہا ہے۔
اسرائیل اس وقت ننگی جارحیت پر ہے۔ غزہ اور قریبی علاقوں کے مسلمان بے یار و مددگار ہیں۔ اوپر سے کارپٹ بمباری ہو رہی ہے۔ فاسفورس کا استعمال کرکے انسانوں اور عمارتوں کو زندہ جلایا جا رہا ہے۔ارضِ فلسطین لہو لہو ہے۔ مسلمان ممالک میں کوئی دم خم نہیں کہ اسرائیلی جارحیت کا ہاتھ روکے۔ لیکن اگر یہ آگ نہ روکی گئی تو یہ جنگ پھیلے گی اور یہ بہت سے مسلمان ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔یہ جنگ اب فیصلہ کن نظر آ رہی ہے۔ اس میں فلسطینیوں کا بھاری جانی و مالی نقصان تو نوشتہ دیوار ہے ہی، مگر اسرائیل کو بھی اسکی قیمت چکانی ہوگی۔ مسلمان خصوصاً عرب ممالک کے اندر سے آوازیں اُٹھیں گی، ایک لہر اٹھے گی جو بہت کچھ بہا کر لے جائے گی۔ وہی بچے گا جو اس وقت تاریخ کی صیح اور درست سمت میں کھڑا ہو گا۔یہ مظلومیت اور سسکتی ہوئی انسانیت کو بچانے کا وقت ہے۔ یہ عمل اور تحرک کا وقت ہے۔ یہ اپنے ان مظلوم بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہونے کا وقت ہے جن کے پاس نہ کھانے کو نہ پینے کو کچھ ہے۔ وہ سرنگوں میں گھسے بیٹھے ہیں اور اوپر سے بم برس رہے ہیں۔ ساٹھ سے زائد اسلامی ملکوں میں سے کوئی تو ہو جو ان مظلوموں کا چارہ گر بنے، جو ان کی امیدوں کا محور ہو، جو ان کے ساتھ کھڑا ہو۔ کوئی تو ہو۔بشکریہ ڈیلی پاکستان
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔