منگل , 12 دسمبر 2023

پنجاب میں اساتذہ کی گرفتاریاں

(نسیم شاہد)

ابھی چند روز پہلے محکمہ پولیس کی طرف سے جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن نظر سے گزرا تھا، جس میں تمام تھانوں کے ایس ایچ اوز اور دیگر پولیس افسروں کو یہ ہدایت کی گئی تھی کہ وہ تھانے یا دفاتر میں آنے والے اساتذہ کو عزت و تکریم کے ساتھ بٹھا کر اُن کی بات سنیں،کل سے میں جو مناظر دیکھ رہا ہوں اور جس طرح لیو انکیشمنٹ اور پنشن کے لئے احتجاج کرنے والے اساتذہ کے ساتھ پولیس مار دھاڑ والا جو سلوک کر رہی ہے اور جس طرح لاہور کے تھانوں کی چھوٹی چھوٹی حوالاتوں میں کالج اور سکول کے اساتذہ کو ٹھونس رکھا ہے،اُس سے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بات بہت درست لگتی ہے کہ پولیس کی عزت نہیں رہی لگتا ہے کرائے کی بن گئی ہے۔ اس پر یقینا پولیس والے کہیں گے،ہم کیا کریں،ہمیں سرکار کا حکم ماننا پڑتا ہے کیونکہ ہم ایک ڈسپلن فورس ہیں ہمیں تو جو حکومت کہتی ہے، کرتے ہیں۔ اب حکومت کے دِل ہی میں اساتذہ کی کوئی قدر نہیں تو ہم کیا کریں،لاٹھیاں بھی برسائیں گے اور گرفتاریاں بھی کریں گے نہ کریں تو افسران ہمیں نہیں چھوڑیں گے۔ویسے بات تو اُن کی بھی درست ہے۔سیاپا حکومتی فیصلوں کی جہ سے برپا ہوتا ہے اور کنٹرول کرنے کا ٹاسک پولیس کو دیا جاتا ہے۔ویسے ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں آ سکی کہ پنجاب کی نگران حکومت کس ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔اُس کا اول و آخر کام تو یہ ہے کہ صوبے میں انتخابات کرائے اور جب تک انتخابات نہیں ہوتے روزمرہ کے حکومتی امور چلائے،مگر وہ عجیب کاموں میں پڑ گئی ہے۔وہ کام جو قیام پاکستان سے لے کر اب تک بڑی کامیابی سے جاری ہیں،انہیں تبدیل کرنا چاہتی ہے،بھلا کس مینڈیٹ کے تحت اُسے یہ اختیار ملا ہے۔بجٹ کے موقع پر بھی اس پنجاب حکومت نے سرکاری ملازمین کے ساتھ زیادتی کی،تینوں صوبوں اور وفاق میں پنشن35فیصد بڑھائی گئی،لیکن پنجاب میں صرف پانچ فیصلہ اضافہ کیا گیا۔اسی طرح تنخواہیں بھی وفاق اور باقی صوبوں کے مطابق نہیں بڑھائی گئیں جس پر شدید احتجاج ہوا اور حکومت کو بالآخر گھٹنے ٹیکنے پڑے۔اُن کے بعد پنشن اور لیو اِنکیشمنٹ کے قواعد میں تبدیلیاں کی گئیں یہ وہ حقوق ہیں جو سرکاری ملازمین کو ہمیشہ سے حاصل رہے ہیں،کسی منتخب یا آمرانہ حکومت نے انہیں ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔کیا پنجاب کی یہ نگران حکومت خاص اختیار لے کر آئی ہے۔کل ایک خاتون اُستاد لاہور سیکرٹریٹ کے باہر مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ جس حکومت کی اپنی آئینی حیثیت90دنوں کے بعد مشکوک ہو چکی ہے وہ اتنے بڑے اور بنیادی فیصلے کس بنیاد پر کر رہی ہے۔ایسے فیصلوں کا اختیار تو صرف عوام کے ووٹوں سے آنے والی حکومتوں کا ہوتا ہے۔

جتنی بڑی تعداد میں اساتذہ اور سرکاری ملازمین کو موجودہ نگران حکومت کے دور میں گرفتار کیا گیا ہے،پنجاب میں اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔شہباز شریف جب پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے، اُس کے بعد پرویز الٰہی،عثمان بزدار غرض کہ ہر وزیراعلیٰ کے دور میں کسی نہ کسی مسئلے پر لاہور سیکرٹریٹ کے باہر اساتذہ اور سرکاری ملازمین نے اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرے کئے،دھرنے دیئے، مگر اُن پر لاٹھی چارج ہوا اور نہ دھرناختم کرانے کے لئے دھاوا بولا گیا،بلکہ مذاکرات کا راستہ اختیار کیا گیا اور خوش اسلوبی سے احتجاج ختم کرنے کی راہ نکالی گئی۔بجٹ کے موقع پر بھی جو دھرنا اسی لاہور سیکرٹریٹ کے سامنے دیا گیا تھا،اُس سے مسلم لیگی رہنما ملک محمد احمد خان نے خطاب کرتے ہوئے مظاہرین کو یقین دلایا تھا کہ وہ دھرنا ختم کر دیں،مطالبات منظور ہو جائیں گے جس پر پنجاب بھر سے آئے ہوئے اساتذہ اور ملازمین واپس چلے گئے تھے۔اس بار پنجاب حکومت کے شہ دماغوں کے ذہن میں نجانے کیا گھمنڈ آ گیا کہ انہوں نے پُرامن احتجاج کرنے والے اساتذہ و ملازمین کے خلاف ریاستی طاقت استعمال کرنے کا احمقانہ فیصلہ کیا۔پولیس کی بھاری نفری نے دھاوا بولا اور یہی عمل فیصل آباد اور دیگر شہروں میں بھی دہرایا گیا،کالج اور سکول اساتذہ کے رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا،انہیں تھانوں کی قبر نما حوالاتوں میں بند کر دیا،جب آپ کسی کو جوابدہ نہ ہوں،تو اپنی من مانی کرتے ہیں، لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، بے جا فیصلے نافذ نہیں کئے جا سکتے۔تھوڑی سی بھی سمجھ بوجھ ہو تو یہ بات بآسانی سمجھ آ سکتی ہے کہ جس سے لاکھوں افراد متاثر ہوتے ہیں،وہ فیصلے کبھی قبول نہیں کئے جاتے۔موجودہ نگران حکمران کسی دوسرے سیارے سے نہیں آئے کہ انہیں معلوم نہ ہو،جو کام منتخب اور مقبول حکومتیں نہیں کر سکیں وہ کیسے کر سکتے ہیں۔پھر سوال یہ ہے کہ آخر یہ ایجنڈا دیا کس نے ہے؟ پنجاب کے سرکاری ملازمین کا یہ بڑا جائز سوال یہ ہے کہ کیا فوج، عدلیہ اور دیگر وفاقی محکموں کے ملازمین سے بھی یہ بنیادی حقوق چھینے گئے ہیں جو اُن سے چھینے جا رہے ہیں۔کیا طاقت کے زور پر ایسی تحریکوں کو دبایا جا سکتا ہے جو بنیادی حقوق سے تعلق رکھتی ہیں۔نگران حکومت اچھے کام کرے تو سب اُسے سراہیں گے،لیکن ایسے فیصلے جو طے شدہ حقوق چھیننے کے ضمن میں کئے جائیں گے تو پھر احتجاج ہو گا جس کے آگے گھٹنے بھی ٹیکنے پڑیں گے۔

پنجاب کی نگران حکومت کے دور میں یہ تاریخ بھی رقم ہو گئی کہ پولیس نے خواتین اساتذہ پر بھی ڈنڈے برسائے۔ فیصل آباد میں تو کالج کی خواتین اساتذہ کو پولیس گاڑیوں میں زبردستی بٹھا کر تھانے لے جایا گیا۔یہ عقل سے عاری فیصلوں کی سب سے بڑی مثال ہے اور طاقت کے زور پر آواز دبانے کی ایک بری کوشش بھی کہی جا سکتی ہے۔اگر آپ کے پاس اپنے فیصلے منوانے کے لئے دلیل نہیں ہے تو آپ طاقت کے ذریعے انہیں نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔سرکاری ملازمین اور اساتذہ یہ احتجاج کئی ماہ سے کر رہے تھے۔حکومت تک مسلسل اپنی آواز پہنچا رہے تھے۔لاہور سیکرٹریٹ کے باہر دھرنے کی کال بھی ایک ماہ پہلے دی گئی تھی،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت دھرنے کی نوبت آنے سے پہلے ایپکا جو سرکاری ملازمین کی مشترکہ تنظیم ہے، کے عہدیداروں کو مذاکرات کی دعوت دیتی۔ درمیانی راہ نکالنے کی کوشش کی جاتی،مگر حکومتی زعم میں مبتلا افراد نے اس پر توجہ نہیں دی، جب ہزاروں ملازمین پنجاب بھر سے لاہور پہنچ گئے اور انہوں نے دھرنا دے دیا تب بھی دانشمندانہ فیصلے کرنے کی بجائے پولیس کے ذریعے ایک ایسے معاملے کو دبانے کا احمقانہ فیصلہ کیا گیا جو ملازمین اور اُن کے بچوں کے مستقبل کے لئے کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ایک نگران حکومت ناتجربہ کار ہی ہوتی ہے،لیکن ایسی ناتجربہ کاری جو صوبے کے پُرامن ماحول کو خراب کر دے حماقت کے زمرے میں آتی ہے۔آج صوبے بھر میں تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں،اساتذہ اور طلبہ سڑکوں پر ہیں جگہ جگہ پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہو رہی ہیں،نگران حکومت مسئلے کی سنگینی کو سمجھ کر دانشمندانہ فیصلے کے تاکہ معاملات کو معمول پر لایا جا سکے۔بشکریہ ڈیلی پاکستان

 

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …