(چودھری خادم حسین)
جن خدشات کا اظہار میں نے اور میرے جیسے کئی اور حضرات نے کیا وہ سامنے آ گئے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اب اسرائیل کی طرف سے غزہ کے مشرقی حصے کو خالی کرنے کا الٹی میٹم دیا گیا ہے۔ پوری دنیا (ماسوا امریکہ +مغرب) اضطراب میں ہے اور فلسطینی مظلوم عوام کی جاری نسل کشی کا مزید بہیمانہ اقدام دیکھ رہی ہے۔اس کے خلاف اب احتجاج شروع ہو گیا اور یہ سلسلہ ان ممالک میں بھی ہے جو اسرائیل کے حامی ہیں، میرے دکھوں ہی میں ایک دکھ یہ بھی ہے کہ فلسطینیوں کو بے آسرا چھوڑ دیا گیا ہے اور اپیلوں پر گزارہ کیا جا رہا ہے، میرے لئے یہ تعجب کی بات نہیں کہ امریکہ نے برطانیہ سے مستعار لے کر خلیج کے وسط میں یہ غنڈہ پالا جسے ایک بڑے ڈان کی حیثیت دی گئی۔ امریکہ کا اس میں وہی مفاد ہے جو اس کی ڈیپ سٹیٹ نے ایک سوسال کے لئے بنا کر صدورسے منظور کرایا، اس منصوبے کا تمام تر مقصد عربوں کے سرپر خوف مسلط کرکے ان کے قدر تی وسائل کی دولت سے مستفید ہونا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کلیساء کا بھی ایک روپ ہے جو اب اسرائیلیوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے، حالانکہ تاریخ میں ان اسرائیلیوں نے پہلے عیسائیوں ہی کو دیس نکالا دیا تھا۔
میں نے عرض کیا کہ میں صدمے سے بے حال ہوں لیکن کوئی تعجب نہیں کہ یہ جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے یہ ہم مسلمانوں نے خود اپنے ہاتھ سے تحریر کیا اور حضور اکرمؐ کی طرف سے چودہ سو سال پہلے کئے گئے انتباہ پر توجہ نہ دی۔ ہم مسلمانوں کے سب مسالک اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ دنیا فانی ہے اور اللہ کے فرمان مبارک کے مطابق اسے فنا ہونا ہے کہ اللہ ہی کی ذات بابرکات باقی رہے گی تاہم اس وقت سے پہلے جو ہونا ہے وہ بھی بتا دیا گیا تھا اور مسلمانوں کو آگاہ کیا گیا کہ اگروہ اپنے اعمال خراب کریں گے تو ان کو مصائب کا بھی سامنا ہوگا۔ احادیث اور بزرگوں کی طرف سے تشریح اور وضاحت سے یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ مسلمانوں کی اپنی بے راہ روی کی وجہ سے وہ مصائب سے دوچار ہوں گے حتیٰ کہ ان کو دجال سے بھی واسطہ پڑے گا اور اس دجال اور ان کے ماننے والوں سے نجات ہی کے لئے حضرت مہدی ؑ کا ظہور ہوگااس سلسلے میں مسلمانوں کے تمام مسالک متفق ضرور ہیں تاہم تشریح کے حوالے سے ان کا موقف کچھ مختلف بھی ہے،اسی طرح یہ اسرائیلی دجال کے منتظر ہیں کہ ان حضرات نے حضرت ابراہیمؑ کی تعلیمات سے منہ موڑا تھا،یہ بالکل درست ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل سے خطہ زمیں کا وعدہ کیا لیکن یہ وعدہ ان میں سے ایمان والوں کے ساتھ تھا جو انہوں نے پورا نہ کیا۔ اللہ نے نافرمان اسرائیلیوں کو کئی بار معاف کیا لیکن ان کی دم ٹیڑھی رہی چنانچہ ان کے لئے عذاب کی پیش گوئی ہے جبکہ گمراہ لوگوں سے ناتا نہیں جوڑا جا سکتا۔آج کے دور میں جن مسلمانوں نے اپنے ذہن کے مطابق امن کی خاطر اسرائیل سے تعلقات جوڑے ان پر عیاں ہو گیا ہوگا کہ یہ وہ بنی اسرائیل والے نہیں ہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کے پیغمبر کی تعلیمات کو رد کرکے بچھڑے اور بتوں کی پوجا کی تھی اور یہ ناقابل اعتبار ٹھہرے تھے، اس لئے ان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔
میرے سامنے معتبر استاد پروفیسر سلیم صاحب کی تحقیق ہے جو انہوں نے محنت سے کی اور احادیث سے رجوع کیا۔ان سے نائن الیون کے بعد درخواست کی گئی تھی، ان کی تحقیق سے پتہ چلا کہ صہیونی قوم کیا ہے اور اس پر اعتبار یا اعتماد نہیں کیا جا سکتا، اس تحقیق کے مطابق مسلمانوں میں دولت اور اس کے اثرات کا ذکر اور یہ بھی بتایا گیا کہ کفار کے مقابلے میں مسلمان آپس میں تقسیم ہوں گے اور ان میں اتحاد نہیں ہوگا اگر ماضی قریب کا ہی جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ الجزائر سے لیبیا، شام، عراق اور اردن میں جو بھی ہوا وہ کس کی حکمت عملی تھی اور مسلمانوں ہی نے مسلمانوں کے خلاف کوشش کی بلکہ ب بھی مسلمان ہی مسلمانوں کے خلاف ”جہاد“ کر رہے ہیں اور فرمان قرآن و رسولؐ بھول گئے کہ ایک معصوم بھائی کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے جس تحقیق کا میں نے ذکر کیا اس کے مطابق دجال کی آمد اور اس سے پہلے مسلمانوں کو تین بار شکست ہو گی اور پھر حضرت مہدی ؑ اپنی جماعت کے ساتھ آ کر جہاد کریں گے اور بیت المقدس کو فتح کر کے ہی وہاں نماز ادا کی جائے گی۔ حضرت مہدی ؑ امتی ہوں گے اور ان کا درجہ بلند ہوگا، اب یہ تحقیق یا ہمارے پرانے باعمل بزرگ یہ تو نہیں بتا سکے کہ یہ سب کب ظہور پذیر ہو گا تاہم ان کی یہ ہدایت ضرور تھی کہ مسلمانوں کو ان کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے جن سے منع کیا گیا اگر ایسا کریں گے تو فاتح عالم ہوں گے وگرنہ رسوا ہوں گے، اگر آج کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو اتفاق اور اتحاد کا دور دور پتہ نہیں، ہر ایک کو اپنا مفاد عزیز ہے۔
قارئین! میں کسی پر الزام لگائے بغیر یہ عرض کرتا ہوں کہ آج غزہ پر جو بیت رہی اس کے حوالے سے دنیا کا طرزعمل دیکھیں تو آپ اندازہ کرلیں گے کہ حالت کیا ہے۔ یہ درست کہ سعودی عرب نے امن کے لئے کوشش شروع کر دی، ترکیہ بھی شامل ہو گیا، پاکستان نے بھی مذمت کی، لیکن اس سب سے غزہ کے فلسطینیوں کو کیا فائدہ ہوا، دوسری طرف امریکہ کے بعد برطانیہ بھی اپنے پالتو کے لئے میدان میں اتر آیا، جبکہ یورپی یونین والوں نے بھی مجاہدین کی مذمت اور اسرائیل کی حمایت کی ہے،امریکی وزیر خارجہ دورہ کر کے گئے تو جرمنی کی وزیرخارجہ آنے والی ہے۔ ہر ایک کو اسرائیل کی فکر ہے اور جو بہیمانہ بمباری اسرائیل کی طرف سے کرکے غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا، عورتوں سمیت بچوں کو شہید کیا گیا، بجلی، پانی، خوراک بند کر دی گئی۔ اقوام متحدہ نے بھی تشویش ظاہر کی لیکن کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ امریکہ، برطانیہ عملی طور پر سامنے آ گئے ہیں، ان حالات میں مجاہدین ہی کا حوصلہ ہے کہ یہ غزہ کے مکینوں کی مسلسل نسل کشی ہے اور یہ تھوڑے مجاہد عام اسلحہ سے مقابلہ میں اترے ہیں، تنقید نگاروں کا خیر مقدم کرتا ہوں کہ اکثر نے درد مندی سے کہا ہے کہ حماس کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، طاقت اور اسلحہ کے حوالے سے یہ درست ہو سکتا ہے لیکن اس پر غور کریں کہ کتنے مسلمان ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور اب سعودی عرب کے ساتھ بھی تعلقات استوار ہو رہے تھے جس کی پیروی میں اور بھی کئی اسلامی ممالک تیار تھے ایسے میں فلسطینیوں نے بالکل ہی صفر ہو جانا تھا اور اکیلے رہ جانے سے بہتر ہے کہ جان دے دی جائے حماس کا یہ فیصلہ گھٹ گھٹ کر مرنے سے لڑ کر مرنا ٹھیک ہے اس پس منظر میں درست ہے کہ اسرائیل کا حقیقی چہرہ سامنے آیا اور جس پیمانے پر اس کی طرف سے غزہ والوں کو ختم کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا وہ المناک ہی نہیں شرمناک بھی ہے اتنا تو ہوا کہ ٹھنڈا ٹھار ہوا تنازعہ ابھر آیا اور اسرائیل نے شام اور لبنان پر حملے کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ دوست نہیں پکا دشمن ہے، ایسے میں عرب خلیجی ممالک اور دیگر مسلمان ممالک اگر لڑ نہیں سکتے تو اپنا معاشی دباؤ تو استعمال کر سکتے ہیں، اللہ فلسطینیوں کی غیب سے مدد فرما دے۔بشکریہ ڈیلی پاکستان
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔