(سید مجاہد علی)
گزشتہ ہفتہ کے دوران سپریم کورٹ کے فل بنچ نے ’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ مجریہ 2023‘ پر فیصلہ سناتے ہوئے پارلیمنٹ کے اختیار قانون سازی کو تسلیم کیا۔ اس قانون کے نفاذ کو قبول کر کے درحقیقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنے کے بارے میں پارلیمنٹ کے حق کو تسلیم کر لیا گیا۔ اس تاریخ ساز فیصلے نے پارلیمنٹ کو ملک کا سب سے اہم اور سب سے بااختیار ادارہ تسلیم کیا کیوں کہ یہ ادارہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے ارکان سے تشکیل پاتا ہے۔ البتہ ملک میں منتخب ادارے قائم کرنے کے لیے انتخابات کے انعقاد کا معاملہ بدستور شک و شبہ کا سبب بنا ہوا ہے۔
عسکری اداروں نے سانحہ 9 مئی کو عذر بنا کر ملک کی اہم اور مقبول پارٹی پاکستان تحریک انصاف کو منظر نامہ سے ہٹا دینے کا اہتمام کیا ہے۔ اس کے چیئرمین عمران خان سمیت تمام اہم لیڈر اور بڑی تعداد میں کارکن جیلوں میں بند ہیں۔ ان افراد کی اپیلیں اگر ہائی کورٹس میں منظور بھی ہوجائیں تو انہیں کسی دوسرے الزام میں دھر لیا جاتا ہے۔ عدالتوں کی طرف سے اعلیٰ افسروں کو دیے گئے توہین عدالت کے انتباہ نے بھی یہ صورت حال تبدیل نہیں کی ہے۔ عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں سزا دے کر جیل میں بند کیا گیا تھا۔ البتہ ہائی کورٹ سے یہ سزا معطل ہو جانے کے بعد انہیں سائفر کیس میں گرفتار کر لیا گیا۔ اور اب فرد جرم عائد کر کے اس الزام میں انہیں طویل سزا دینے اور انتخابات سے نا اہل قرار دینے کا اہتمام کرنے کی منصوبہ بندی دکھائی دیتی ہے۔ ملک کی اعلیٰ عدالتیں بھی کسی حد تک اس صورت حال کے سامنے بے بس دکھائی دیتی ہیں کیوں کہ انتخابات کے انعقاد کا معاملہ مسلسل کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔
سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے عہدہ سنبھالنے اور پھر فل کورٹ کے ذریعے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ سنانے کی صورت حال کو جمہوریت اور آئینی اداروں کے لیے خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے عالی وقار ججوں نے ضرور آئین کی بالادستی کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے لیکن ملک میں انتخابات منعقد کروانے کا فیصلہ اور انتظام کرنا بہر حال اعلیٰ عدالتوں کا کام نہیں ہے۔ ملک کے سیاست دانوں اور انتظامی مشینری کے علاوہ الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کو یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے۔ لیکن اگر محض اس خوف کی بنیاد پر انتخابات کو کھلواڑ بنانے کی کوشش کی جائے گی کہ کہیں تحریک انصاف ایک بار پھر انتخابات نہ جیت لے تو جمہوریت، آئین اور حکومت سازی میں عوامی اختیار کے نام پر اس قسم کے ہتھکنڈوں کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔
سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے زمانے میں سپریم کورٹ میں گروہ بندی دکھائی دینے لگی تھی۔ چیف جسٹس اپنی مرضی کے ججوں کا بنچ بنا کر اہم ترین آئینی اور سیاسی فیصلے کرتے رہے تھے۔ انہی میں سے ایک آئین کی شق 63 اے کی وضاحت کے لیے صدر عارف علوی کا ریفرنس بھی تھا۔ اس ریفرنس پر فیصلہ صادر کرتے ہوئے چیف جسٹس نے پانچ رکنی بنچ میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی اور دو ساتھی ججوں کے تعاون سے ایسا فیصلہ صادر کیا جسے اسی بنچ میں شامل دوسرے دو ججوں نے ’آئین کو از سر نو تحریر کرنے‘ کا نام دیا تھا۔ اسی حکم کے بعد پنجاب اسمبلی میں حکومت تبدیل ہو گئی اور سپریم کورٹ کی خصوصی نگرانی میں چوہدری پرویز الہیٰ کو وزیر اعلیٰ بنوایا گیا۔ بعد میں جب عمران خان کے حکم پر پرویز الہیٰ نے پنجاب اور محمود خان نے خیبر پختون خوا کی اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کیا تو الیکشن کمیشن اور پی ڈی ایم کی حکومت نے مقررہ آئینی مدت میں انتخابات کروانے سے انکار کر دیا حالانکہ سپریم کورٹ انتخابات کروانے کا حکم جاری کرچکی تھی۔
یہ ساری صورت حال ایک طرف آئین کے ساتھ کھلواڑ کا سبب بنی تو دوسری طرف سپریم کورٹ کے وقار اور اتھارٹی کو بھی چیلنج کیا گیا۔ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال چونکہ عدالت میں سیاست ملوث کرنے میں مشغول تھے، اس لیے انہیں سپریم کورٹ کا وقار بحال کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ بلکہ جتنا وقت وہ اس عہدے پر فائز رہے وکلا تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کے اصرار کے باوجود اہم آئینی معاملات میں فل کورٹ بنانے سے گریز کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت عظمی اپنے فیصلوں پر عمل درآمد پر اصرار کرنے کی بجائے ’مصلحت آمیز‘ رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہوئی۔ گزشتہ سال ڈیڑھ سال کے دوران سپریم کورٹ کے سیاسی فیصلوں اور چیف جسٹس کے رویہ سے البتہ یہ واضح ہو گیا تھا کہ ہر ادارہ اگر اپنی حد میں رہتے ہوئے کام کرے تب ہی اس کا احترام بھی ہوتا ہے اور وہ اپنے فیصلوں پر پورے اختیار سے عمل درآمد بھی کروا سکتا ہے۔ اس صورت حال سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ ملک کے ہر ادارے کو (خواہ وہ آئینی حیثیت میں آئینی ادارہ ہو جیسا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان یا پارلیمنٹ یا اسے اس کی ’طاقت‘ کی وجہ سے ڈی فیکٹو طور سے ادارہ مان لیا گیا ہو جیسا کہ فوج) اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے اور آئین سے بالا ہو کر قومی مفادات یا صورت حال کی تفہیم کا کوئی انوکھا اظہار کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ واضح ہونا چاہیے کہ انہی بے اعتدالیوں کی وجہ سے ملک میں نہ صرف جمہوری نظام کو شدید نقصان پہنچا ہے بلکہ بداعتمادی اور سیاسی نظام پر عوام کے اعتبار کو بھی ٹھیس پہنچی ہے۔ اب سب کو مل جل کر اس اعتبار کو بحال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
تاہم کسی ایک سانحہ کی بنیاد پر ایک بڑی سیاسی پارٹی کو نشانہ بنانے سے یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ سانحہ 9 مئی کے بعد عسکری اداروں نے تحریک انصاف کو سزا دینے کا فیصلہ کیا اور اس کے حصے بخرے کرنے کا طریقہ اختیار کیا گیا۔ اس پارٹی میں سے دو پارٹیاں پہلے ہی نکالی جا چکی ہیں، اس کے علاوہ متعدد لیڈروں کو گرفتار کرنے کے بعد سانحہ 9 مئی کی مذمت پر مجبور کیا گیا۔ پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک سو سے زیادہ لیڈر اور کارکن کسی قانونی اختیار کے بغیر فوج کے قبضے میں ہیں اور ان کے خلاف کھلی عدالتی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔ یہ ضرور ہے کہ جس شخص نے اگر کسی مجرمانہ کام میں حصہ لیا ہے تو اس کے خلاف ملکی قانون کے مطابق کارروائی کی جائے اور شفاف عدالتی طریقہ کے مطابق انہیں مناسب سزائیں دی جائیں۔ اس کے برعکس اگر مذمتی بیان دے کر رہائی پانے کی روایت قائم کی جائے گی اور کسی ایک پارٹی کو ختم کرنے کے لیے، اس کی قیادت کو نشانہ بنایا جائے گا اور ان کے خلاف قائم مقدمات میں انصاف کا خون ہو گا تو اس سے ملک کا نظام کبھی بھی درست نہیں ہو سکے گا۔ اور نہ ہی عدالتوں یا پارلیمنٹ کا وقار بحال ہو سکے گا۔
ملکی معاملات پر اس وقت فوج کی دسترس واضح طور سے دکھائی دے رہی ہے۔ سابقہ حکومت کے دور میں سرمایہ کاری کی خصوصی کونسل میں آرمی چیف کو شامل کر کے فوج کو ملکی معیشت کا ذمہ دار بنا دیا گیا تھا۔ اب آرمی چیف متعدد بار یہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ ملکی معاشی بحران کے لیے کوئی بھی قدم اٹھانے سے گزیر نہیں کریں گے۔ ان بیانات کی صداقت و دیانت پر شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن کسی آرمی چیف کو ملکی آئینی انتظام میں ایسے فیصلے کرنے کا مکمل اختیار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کا آسان ترین حل یہی ہے کہ الیکشن کمیشن جلد از جلد انتخابات کے شیڈول کا اعلان کرے اور نئی منتخب حکومت آئینی طریقوں کے مطابق فیصلہ سازی کا عمل آگے بڑھائے اور جس معاملہ میں فوج کے تعاون کی ضرورت ہو، اسے آئینی تقاضے پورے کرتے ہوئے حاصل کیا جائے۔ یہ اختیار نہ تو براہ راست آرمی چیف کو تفویض ہو سکتا ہے کہ وہ اہم قومی معاملات پر اقدام کریں اور نہ ہی انتخابی عمل کے لیے قائم ایک عارضی نگران حکومت کو ایسے اہم فیصلے کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
شہباز حکومت نے دباؤ یا مصلحت کے تحت نگران حکومت کو کچھ اضافی اختیارات دینے کا قانون ضرور بنایا تھا لیکن آئین یا اس قانون کے تحت نگران حکومت کو غیر معینہ مدت تک حکمرانی کا حق نہیں دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے تمام شعبوں میں فوجی افسروں کو اختیارات دینے کا اختیار حاصل ہوجاتا ہے۔ فوج کو سول انتظامی معاملات میں ملوث کرنے کے نتائج ہم سب کے سامنے ہیں۔ ان غلطیوں کو دہرانے سے نتیجہ تبدیل نہیں ہو گا بلکہ وہی ڈھاک کے تین پات کے مصداق ہم جس مقام سے چلے تھے گھوم پھر کر وہیں واپس آ جائیں گے۔ نگران حکومت نے ایک طرف نادرا کی سربراہی ایک فوجی جنرل کے سپرد کی ہے تو دوسری طرف حال ہی میں متعدد فوجی افسروں کی خدمات احتساب بیورو کے حوالے کی گئی ہیں۔ ان فیصلوں سے ملک میں سول حکمرانی اور منتخب حکومت کے اختیارات کو لاحق خطرات و اندیشوں میں اضافہ ہو گا۔
سپریم کورٹ نے ’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ مجریہ 2023‘ پر فیصلے میں ملکی پارلیمنٹ پر جس اعتماد و بھروسے کا اظہار کیا ہے، اسے ملکی سیاست میں وسیع تر تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دیگر ادارے، فوج اور سیاسی پارٹیاں بھی پارلیمنٹ، آئین اور جمہوریت پر ایسے ہی اعتماد کا واشگاف اظہار کریں۔ یہ توقع کرنا عبث ہو گا کہ سپریم کورٹ ملکی سیاسی و آئینی معاملات کے سب پہلوؤں کو مائیکرو مینیج کرے گی۔ یہ طریقہ نہ تو عملی لحاظ سے ممکن ہے اور نہ ہی اس سے کوئی اچھی جمہوری و قانونی روایت جنم لے سکتی ہے۔ ملک میں آئین کی بالا دستی کے لیے ہر ادارے کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہ کام اسی وقت ممکن ہو گا جب الیکشن کمیشن تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر انتخابات کے انعقاد کا اعلان کرے۔ تمام سیاسی پارٹیوں کو انتخابات میں مساوی بنیاد پر حصہ لینے کا حق حاصل ہو اور انتخابی نتائج کو سب لوگ خوش دلی سے قبول کر کے ملک کو آگے لے جانے کے کام کا آغاز کریں۔بشکریہ ہم سب نیوز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔