ہفتہ , 9 دسمبر 2023

حماس کی کارروائی، ایران اور مزاحمتی قوتوں کا کردار

(تحریر: ارشاد حسین ناصر)

حصہ اول

سات اکتوبر کے دن کیا عجیب منظر دیکھا گیا۔ ایک ایسا منظر جسے دیکھنے کو آنکھیں ترس گئی تھیں۔ ہماری آنکھوں نے یہ دن بھی دیکھنا تھا۔ یقین نہیں آرہا تھا، اسرائیل قابض و غاصب دہشت گرد کے قلب میں ایسا زخم لگایا گیا کہ دنیا اس پر حیرت زدہ ہے کہ ایسا ہو کیسے گیا، کیا ایسا ممکن نظر آتا تھا، ہرگز نہیں۔ اسرائیل کا خوف، اس کی ٹیکنالوجی، اس کے انتظامات، اس کی سختیاں، اس کی فورسز، اس کی سفاکیت، اس کی بدمعاشی، اس کی جارحیت، اس کا تجاوز دنیا کے سامنے وہ ہر وہ کام کر چکا ہے اور بلا جھجھک کرتا ہے۔ اس سب کے باوجود حماس کا مقبوضہ فلسطین میں داخل ہو کر اسے ناقابل تسخیر قرار دینے والوں، اس کا خوف دلانے والوں، اس سے ماتھا نہ لگانے کے مشورے دینے والوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اگر خدا کیلئے قیام کیا جائے تو اس کی مدد شامل حال ہوتی ہے اور جہاں دشمن کا خوف جاتا رہتا ہے، وہیں دشمن کے دل میں خوف بیٹھ جاتا ہے۔

اس دن ایسا ہی تو ہوا، ایساخوف بیٹھا ہے کہ کوئی بھی غیر ملکی وفد یا سربراہان آتے ہیں یا وزراء آتے ہیں تو خوف کی علامت سائرن بج اٹھتے ہیں اور غیر ملکی وفود کی دوڑیں لگ جاتی ہیں، کہیں لیٹے نظر آتے ہیں تو کہیں بھاگ کر بنکرز میں جاتے دکھتے ہیں، جبکہ جن پر زمین تنگ کر دی گئی ہے، جن پر پانی بند کیا گیا ہے، جن کی فضا میں بارود کی بارش ہوتی ہے، جو آگ و بارود کی بارش کا سامنا کر رہے ہیں، ان کے چہروں پر خوف نام کی کوئی چیز نہیں۔ کیا خوبصورت منظر تھا، جب ایک فلسطینی نوجوان میڈیا کو کچھ انٹرویو دے رہا تھا اور نقاب پہنے ہوئے تھا، اس کی ماں نے اس کا نقاب کھینچ دیا اور کہا کہ کھل کر بولو جو بولنا ہے۔ ایسی مائوں کی بدولت ہی یہ مسئلہ آج تک زندہ ہے۔

اس سے بھی زیادہ خوبصورت منظر وہ لگا، جس میں ایک اجڑے ہوئے گھر بلکہ بستی میں ایک بچہ اپنی سالگرہ کا کیٹ کاٹتا ہے اور پیغام دیتا ہے کہ تم ہماری بستیوں کو تاراج کرکے ہم پر خوف کے پہرے نہیں بٹھا سکتے، ہماری اصل خوشی اس دن ہوگی، جب القدس شریف آزاد ہوگا، اسرائیل کے نجس وجود کا خاتمہ ہوگا۔ کتنا بڑا کلیجہ ہے اس باپ کا، جو اسپتال میں اپنے دو بچوں کی شہادت پر سب سے کہہ رہا ہے کہ اسے خوشی ہے کہ وہ شہداء کا باپ ہے، ان کو رونا نہیں ہے، شکر ادا کریں، جبکہ ان کے مقابل اسرائیلی جنہیں ابھی تک کوئی بڑی ضرب نہیں لگی ہے، سات اکتوبر کے حملے کے بعد بھاگتے نظر آتے ہیں۔

سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا پر بہت سے لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ حماس نے بہت بڑی غلطی کی ہے، اسرائل جیسے سفاک درندے کو موقعہ دیا ہے کہ وہ بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام کرے اور ان کی بستیوں کو تاراج کرے، حماس نے عالمی سطح پر اپنے حامیوں کو بھی کھو دیا ہے۔ عجیب لوگ ہیں، اسرائیل کی سفاکیت اہل فلسطین کیلئے قطعی نئی نہیں، یعنی اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہوا، نہ ہونے جا رہا ہے، بلکہ اسرائیل کی سفاکیت، درندگی گذشتہ پچھتر برسوں میں ہر دن ایسے ہی رہی ہے، بے گناہ نہتے مرد و زن، بچوں، بڑوں، جوانوں، خواتین، جوان لڑکیوں کیساتھ اس کا سلوک نیز فلسطینی زمینوں پر اس کی بنائی جانے والی نئی بستیوں، فلسطینیوں کے کھیت کھلیانوں کو اجاڑنے، آبائی گھروں کی مسماری کسی ایک دن بھی نہیں رکی۔

نہ فقط اسرائیلی فورسز کی سرپرستی میں یہ کام ہوتا ہے، بلکہ دنیا بھر سے لائے گئے یہودی آباد کاروں کو بھی مسلح تربیت، اسلحہ دے کر بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی چھوٹ دے رکھی ہے، اس سب پر دنیا کے امن پسندوں، انسانی حقوق کے چیمپیئنز، امن، محبت، سلامتی کے گیت گانے والوں پر جوں تک نہیں رینگتی، نہ ہی اقوام عالم اس ظلم پر بولنے کی جراءت رکھتے ہیں۔ اوروں کو کیا کہا جائے، مسلم حکمران اور بالخصوص عرب ممالک بھی کسی ظلم پر بولنے سے قاصر اور گونگے بہرے، اندھے ہو جاتے ہیں۔ لہذا حماس کا یہ اقدام کسی بھی صورت غلط نہیں تھا بلکہ سوچا سمجھا منصوبہ اور ایک حکمت عملی تھی، جس کے نتائج کی جانب سب ہی بڑھتے نظر آتے ہیں۔

حماس کے اس اقدام سے قبل تو اسرائیل کیساتھ نارملازیشن کا عمل چل رہا تھا۔ امارات، اومان کے بعد کئی دوسری عرب ریاستوں سے بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی خبریں آنے کا انتظار کیا جا رہا تھا۔ ہمارے ملک میں بھی ایسی کمپین چل رہی تھی۔ یہاں سے بھی وفود جا کر دورے کر آئے ہیں، جو نارملائزیشن کا حصہ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اس ساری مہم کا سرغنہ سعودیہ ہے، جو خود ابھی تک کھل کر یہ اقدام نہیں کرسکا، مگر اپنے زیر اثر ممالک و حکمرانوں سے یہ کام کروا رہا ہے۔ اس کام کی شروعات سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں اس کے صیہونی داماد کشنر کی سربراہی میں شروع ہوئی تھیں، جسے آج بھی عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے۔

حماس کی کارروائی اور اسرائیلی بڑھتے مظالم، بے گناہوں پر کارپٹ، فاسفورس بمباری، اسپتالوں، تعلیمی اداروں، رہائیشی بستیوں، بازاروں پر بلا جھجھک بمبارمنٹ اور انسانی المیوں کا وجود میں آنا، اسرائیل کی طرف بڑھتے ہوئے دوستانہ تعلقات کو روکنے کا وقتی ذریعہ بنے ہیں۔ اسرائیل کے قبضہ کی اب تک کی تاریخ میں شاید ہی ایسا کوئی دن دنیا نے دیکھا ہو کہ ایک مزاحمتی تحریک کے ممبران اس طرح اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر اتنی بڑی تعداد میں مقبوضہ علاقوں میں داخل ہو کر اسے نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوئے ہوں۔ اس کامیابی کے بعد اسرائیل اتنا بوکھلایا ہوا ہے کہ اپنے نقصان کی شدت کو کم رنگ دکھانے کیلئے وحشیانہ حملے کر رہا ہے، مگر ان حملوں سے اس کے اغوا کیے گئے اعلی فوجی، سکیورٹی و جاسوسی عہدیدار واپس ملنے والے نہیں۔

یہ بات رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے کھل کر فرما دی ہے کہ ان وحشیانہ اور سفاکانہ عمل کے بعد مزاحمتی قوتوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا، ان کا کہنا تھا کہ "اگر صیہونی حکومت کے جرائم جاری رہے تو مسلمانوں اور مزاحمتی قوتوں کو دفاعی کارروائیوں سے کوئی نہیں روک سکتا۔” اطلاعات کے مطابق حماس کے عسکری ترجمان ابو عبیدہ نے ایران اور حزب اللہ لبنان سے کھلی مدد طلب کی ہے، اس مدد طلب کرنے کا مطلب ہے کہ ایران اگر اس خطے میں وارد ہوتا ہے تو یہ مقامی نمائندہ طاقت اور قوت کی دعوت ہوگی، جس کے بعد ایران کو عالمی سطح پر اس طلب کے جواب میں کھلے عام مدد کرنے، جیسا کہ ماضی قریب میں ایرانی فوجی مشیر کے طور پر شام میں پہنچے تھے، ایسے ہی اب فلسطین یعنی اہل غزہ کی پکار پر ایرانی فوجی مشیر مدد کرسکیں گے۔ ایران کی مدد کیسے ہوگی، کون سی قوتیں ایران کیساتھ ہونگی، یہ اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں۔جاری ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

 

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …