اتوار , 10 دسمبر 2023

فلسطین فلسطین

(محمد معاذ قریشی)

فلسطینیوں پر آگ اور بارود کی بارش ہوتے دیکھ کر محترمہ ادا جعفری کی ’مسجدِ اقصیٰ‘ کے عنوان سے لکھی گئی ایک چھوٹی سی نظم بے طرح یاد آ گئی:

رن سے آتے تھے تو با طبل ظفر آتے تھے

ورنہ نیزوں پہ سجائے ہوئے سر آتے تھے

خار زاروں کو کسی آبلہ پا کی ہے تلاش

آج رحمتِ یزداں کا سزاوار آئے

وادی گل سے ببولوں کا خریدار آئے

دلق پوش آئے، غلاموں کا جہاں دار آئے

پا پیادہ کوئی پھر قافلہ سالار آئے

ریگ زاروں میں کوئی تشنہ دہن آ جائے

ہوش والو! کوئی تلقین جنوں فرمائے

ادا جعفری صاحبہ کی اس دعائیہ نظم کا کیا ہوا‘ کہ فلسطین آج بھی تشنہ اور فلسطینی لہولہان ہیں۔ اس خطے میں ایک بار پھر ظلم‘ جبر‘ زیادتی‘ دھونس‘ دھاندلی‘ بے ایمانی اور بے حسی کی وہی داستان دہرائی جا رہی ہے جو گزشتہ 75 برسوں سے رقم کی جاری ہے اور جو پتہ نہیں کب تک جاری رہے گی۔ غزہ میں انسانی بحران شدت اختیار کر گیا جہاں اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 2800 سے زائد ہو چکی ہے جبکہ ہزاروں فلسطینی زخمی اور 12 لاکھ سے زائد بے گھر ہو گئے ہیں۔ اس نا انصافی کی وجہ ایک ہی ہے: مغربی ممالک کی دوغلی اور دوہری پالیسیاں اور فلسطینیوں کے بارے میں جانب دارانہ طرزِ عمل۔ پہلی بات مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ اسرائیل نامی مملکت کا قیام فلسطین کی سرزمین پر ہی کیوں ضروری تھا؟ دوسری بات مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ اگر اسرائیل کا قیام ناگزیر تھا تو پھر اسے ان علاقوں تک کیوں محدود نہیں رکھا گیا جن کا تعین اقوام متحدہ کی قرارداد میں کر دیا گیا تھا؟ تیسری بات مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ اسرائیل سے چار جنگیں ہارنے کے باوجود عرب دنیا نے اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے کیوں کوئی ٹھوس پالیسی اختیار نہیں کی؟ دفاع کے حوالے سے ان کی حالت آج بھی ویسی ہی ہے جیسی نصف صدی پہلے تھی۔ اگر عرب ممالک کو فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کا قیام نامنظور تھا اور یقیناً ہونا چاہیے‘ تو پھر ان 75 برسوں میں انہوں نے خود کو اسرائیل کے مقابلے میں مضبوط بنانے کے لیے کیوں کوئی جامع حکمت عملی وضع اور اختیار نہیں کی کہ آج اسرائیل ایک بار پھر فلسطین کے علاقوں پر بمباری کر رہا ہے‘ توپوں کے گولے داغ رہا ہے اور زمینی حملے کی تیاری کر رہا ہے‘ جبکہ عرب ممالک صرف زبانی جمع خرچ میں مصروف ہیں۔ میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ مسئلہ بہت پہلے حل ہو چکا ہوتا اگر عرب ممالک کچھ ہمت کرتے اور مغرب خصوصاً امریکہ کی دوہری اور دوغلی پالیسیوں کا کوئی توڑ کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔ ایسا ایک حل مغرب کو تیل کی ترسیل پر پابندی ہو سکتا تھا۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ نے فلسطینیوں کو غزہ سے نکلنے کی اسرائیل کی وارننگ کو انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ”جبری بے دخلی“ قرار دیا ہے جبکہ پتا چلا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج غزہ پر زمینی حملہ کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے بھی اس حوالے سے اپنے فوجیوں کو اشارہ دیتے ہوئے کہا ہے جنگ کا اگلا مرحلہ آ رہا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے یہ تو کہا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کا قبضہ بڑی غلطی ہو گی‘ لیکن فلسطینی صدر محمود عباس سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ حماس فلسطینیوں کی حق خود ارادیت کی ترجمانی نہیں کرتی جبکہ محمود عباس نے بھی امریکی صدر کی تائید کی۔ ایک لمحے کے لیے اگر یہ تصورکر لیا جائے کہ حماس تنظیم طاقت کا استعمال کر کے غلط کر رہی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج حماس پر انگلی اٹھانے اور اسے غلط قرار دینے والے عالمی رہنما اس وقت کہاں تھے جب حماس تو خاموش تھی لیکن اسرائیل مسلسل یہودی بستیوں میں توسیع کرتا جا رہا تھا؟ فلسطینی علاقوں پر مسلسل قابض ہو رہا تھا۔ آج امن کا پھریرا لہرانے والے عالمی لیڈر اس وقت کہاں تھے جب ہر چند ماہ بعد اسرائیل پُرامن اور غلیل بردار فلسطینیوں پر بندوقوں کی گولیاں اور توپوں کے گولے برسانے لگتا تھا؟ پُرامن رہنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ گزشتہ 75 برسوں میں کئی ایسے مواقع آئے جب فلسطین میں امن قائم ہو سکتا تھا‘ اس وقت ان عالمی حیثیت کے حامل لیڈروں نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا بلکہ یہ بجھتی ہوئی چنگاریوں کو ہوا دینے کی کوشش کرتے رہے۔ حماس پر تو سب کو اعتراض ہے اسرائیل کی مسلسل جارحیت کسی کو کیوں نظر نہیں آتی؟

اسرائیل کے ایک وزیر Gideon Sa’ar نے جنگ کے اختتام پر غزہ کو مزید چھوٹا کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے مشرق اور شمال دونوں جانب سے فلسطینیوں کو اپنا علاقہ چھوڑنا پڑے گا۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کو غزہ کا علاقہ چھوڑ دینے کی دھمکی اسرائیل کے مذکورہ وزیر کی بات درست ثابت کرتی ہے۔ فلسطینی پہلے ہی ایک محدود علاقے میں سمٹے ہوئے تھے‘ مزید پیچھے ہٹنے کا کہنا انہیں زندہ درگور کرنے کے مترادف ہو گا۔

امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل حماس جنگ بڑے تنازع میں بدل سکتی ہے، اور جنگ کے باعث لبنان سرحد پر نیا محاذ کھلنے اور اس جنگ میں ایران کی شمولیت کا بھی خدشہ ہے۔ یہ خدشہ بے جا نہیں۔ ایران نے خبردار کر دیا ہے کہ اسرائیل نے اپنے جرائم نہ روکے تو صورت حال مزید پیچیدہ ہو جائے گی۔ بین الاقوامی برادری پہلے ہی کورونا کی بربادیوں اور روس یوکرین جنگ کے نہایت منفی اثرات کا سامنا کر رہی ہے۔ عالمی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے اور قوموں اور ملکوں کی پیداواری صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ایسے میں فلسطین اسرائیل جنگ طوالت اختیار کر گئی تو مقامی اور عالمی معیشت پر پڑنے والے اس کے منفی اثرات انسانی آبادی کو کسی بڑے المیے سے دوچار کر سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ نہ صرف اس جنگ کو فوری طور پر بند کرانے کی کوششوں کا آغاز کیا جائے اور اسرائیل کا مسلسل آگے بڑھتا ہوا ہاتھ روکا جائے بلکہ مسئلہ فلسطین کے پُرامن اور مستقل حل کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں‘ اور صرف مسئلہ فلسطین ہی نہیں مسئلہ کشمیر اور اسی نوعیت کے دوسرے مسائل کے حل کے لیے بھی عملی قدم اٹھائے جائیں تاکہ نہ صرف متعلقہ خطوں بلکہ عالمی امن کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ صرف قراردادیں ہی منظور نہ کی جائیں بلکہ ان قراردادوں پر عمل درآمد کا بھی اہتمام کیا جائے۔بشکریہ ڈیلی پاکستان

 

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …