(سلمان عابد)
پاکستانی سیاست میں سیاست کا بڑا کھلاڑی وہی ہوتا ہے جو اول سیاسی جوڑ توڑ کی بنیاد پر اپنے اقتدار کے کھیل کا راستہ ہموار کرتا ہے اور اس کا سیاسی اصول ہی اقتدار یا طاقت کی حکمرانی یا اقتدار کے گرد گھومتا ہے۔ دوئم جو بھی سیاسی قیادت یا جماعت اسٹیبلیشمنٹ کے بہت قریب سمجھی جاتی ہے یا اس کے اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ تعلقات کی کہانی کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ہوتی ہے تو اس کے لیے اقتدار کا کھیل کافی آسانیاں کو پیدا کرتا ہے۔
یہ بات بجا کہ سیاست کا ایک بڑا مقصد اقتدار کے کھیل تک سیاسی رسائی کو ممکن بنانا ہوتا ہے اور سیاسی جماعتیں اس کی بنیاد پر عملی سیاست کرتی ہیں۔ لیکن اگر سیاسی جوڑ توڑ کا کھیل یا اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ اقتدار کے کھیل کی کہانی محض اقتدار کے کھیل تک محدود رہتی ہے اور اس کھیل سے قومی مفاد یا عوامی مفاد کی کوئی جھلک نہ نظر آئے تو ایسی سیاست افراد کی طاقت کے گرد ہی گھومتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں اقتدار کا کھیل اور عوامی مفادات کے درمیان ایک باہمی ٹکراؤ غالب نظر آتا ہے۔
پاکستانی سیاست کی یہ بدقسمتی ہے کہ سیاسی جوڑ توڑ کا کھیل ہو یا اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ بہتر تعلقات کی بنیاد پر اقتدار کے حصول کا کھیل دونوں کھیل میں عام آدمی کی سیاست کافی کمزور نظر آتی ہے۔ یہ کھیل انفرادی سطح سے شروع ہو کر خاندانی اور خاندان کے بعد مخصوص دوستوں کی مرہون منت رہتا ہے۔ اگر اقتدار کا کھیل ملک میں پہلے سے جاری بحران یا مسائل و مشکلات کے حل کا سبب نہیں بنتا اور اس کھیل نے پہلے سے موجود حالات میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنا ہے تو پھر یہ کھیل مخصوص لوگوں کے مفادات تک ہی محدود رہے گا۔ اس کھیل میں فی الحال عوام کے لیے کچھ نہیں ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ عوام اور سیاست و جمہوریت یا اقتدار کے کھیل کے درمیان ایک واضح اور بڑی خلیج موجود ہے جو اس نظام حکومت پر بھی عدم اعتماد کو پیدا کرتا ہے۔
ہماری اشرافیہ یا رائے عامہ تشکیل دینے والے افراد اور اداروں میں بھی سیاسی محاذ پر ایسی ہی سیاسی قیادتوں کی پذیرائی کی جاتی ہے یا ان کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کیا جاتا ہے جو جتنا بڑا جوڑ توڑ کا کھلاڑی ہوتا ہے۔ جب اس جوڑ توڑ میں غیر جمہوری، غیر آئینی اور غیر قانونی یا غیر اخلاقی حوالوں سے بات کی جاتی ہے تو منطق یہ دی جاتی ہے کہ اسی کا نام سیاست ہے اور سیاست میں اصول کو بنیاد بنا کر اگر آگے بڑھا جائے گا تو پھر کامیابی کے امکانات کم اور مایوسی یا ناکامی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
ہماری سیاست کا کھیل ہی بے اصولی اور بار بار کے یوٹرن کے گرد گھومتے ہیں اور ہم انہیں کامیاب سیاسی چال کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہمارے اقتدار کے کھیل میں ہمیں جو بندر بانٹ نظر آتی ہے اس میں ریاستی، ملکی، عوامی مفادات کی جھلک کیونکر نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہی چلتا رہے گا تو پھر سیاسی اور جمہوری نظام کی ساکھ یا شفافیت کیسے پیدا ہوگی۔
کیا پاکستانی سیاست میں موجود اقتدار کے کھیل کی بندر بانٹ میں چاہے وہ سیاسی فریقوں کے درمیان ہو یا سیاسی فریقوں کی اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ ہو اس میں ہم عام آدمی کا مقدمہ پیش کر سکتے ہیں یا ان کے مفادات کو جوڑ کر اقتدار کے کھیل کے سیاسی رنگ سجائے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ اگر عام آدمی یا ملکی مفادات کے معاملات کو پس پشت ڈال دیا جائے تو پھر اس مجموعی سیاست اور جمہوریت کے کھیل سے ایک مضبوط ریاست اور حکمرانی کے نظام کا تصور پس پشت چلا جائے گا۔
کیا ہمارے یہاں اہل دانش کی جانب سے اس طرز کی سیاست جو مخصوص افراد یا خاندان کے مفادات یا مخصوص اداروں تک محدود رہتی ہے پر مزاحمتی عمل طاقت پکڑ سکے گا۔ کیونکہ کب تک ہم سیاست اور جمہوریت کے نام پر اس طرح کے مصنوعی سیاسی نظام کی سیاسی آبیاری کرتے رہیں گے اور کب تک اس طرز کے عوام دشمن نظام کو جمہوریت کی چھتری دیتے رہیں گے، یہ موجودہ نظام زیادہ دیر تک اسی طرح نہیں چلایا جا سکے گا۔
اہل سیاست سیاسی جوڑ توڑ اور اقتدار کے کھیل میں عوام کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں اور ان کی پہلی ترجیح یہ ہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہی اقتدار کے کھیل میں عوام کو یا اپنے ووٹروں کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سیاسی مخالفین کے بارے میں جان بوجھ کر جذباتیت اور نفرت یا تعصب یا سیاسی دشمنی کے کھیل کو بنیاد بنا کر سیاسی تقسیم پیدا کرتے ہیں۔ کیونکہ محاذ آرائی اور ٹکراؤ کی سیاست عملی طور پر ان کے مفادات کو فائدہ دیتی ہے۔
جب ملک میں سیاسی، معاشی، آئینی، قانونی اور عوام سے جڑے حقیقی مسائل پر بات چیت ہی نہیں ہونی تو پھر قومی سیاست کو غیر ضروری اور غیر سنجیدہ ایشوز درکار ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنے حمایت یافتہ افراد کو زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں تک محدود کر کے اپنے سیاسی مفادات کو فائدہ پہنچاتے رہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی محاذ آرائی اور ٹکراؤ کی سیاست جہاں فطری بنیادوں پر ہوتی ہے وہیں اس کو جان بوجھ کر ایک خاص مقصد کے لیے پیدا بھی کرنا ہوتا ہے۔
سیاست کا دائرہ کار اسی اصولی، جمہوری، سیاسی، اخلاقی، آئینی اور قانونی نکات کی بنیاد پر ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔ اسی بنیاد پر معاشروں میں ہم مضبوط جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا تصور پنپتے ہوئے دیکھ سکیں گے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہماری سیاسی اور جمہوری یا آئینی یا قانونی جدوجہد اسی فریم ورک کے دائرہ کار میں ہو۔ لیکن یہ کام آسانی سے نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے ہمیں ایک منظم اور متحد ہو کر جدوجہد کو آگے بڑھانا ہو گا۔
سیاسی جماعتیں ہوں یا سیاسی قیادتیں یا سول سوسائٹی یا میڈیا یا عدلیہ سمیت اسٹیبلیشمنٹ سب کے طرز عمل کو اسی آئینی اور قانونی یا جمہوری فریم ورک میں دیکھنا ہو گا اور اسی بنیاد پر ان کو جوابدہ بھی بنانا ہو گا۔ جو لوگ بھی اپنے ذاتی یا سیاسی مفادات کے لیے ملک کی سطح پر جمہوریت اور آئین کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں ان کے آگے بندھ باندھنا ضروری امر ہو گا۔ کیونکہ ان کو کھلی چھٹی دینا یا ان کی جوابدہی کو یقینی نہ بنانا مسائل میں اور زیادہ بگاڑ کو پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔
عمومی طور پر سول سوسائٹی اور میڈیا کے بارے میں رائے پائی جاتی ہے کہ یہ واچ گروپس کے طور پر اپنا کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور ان کی نگرانی اور جوابدہی کا عمل ریاستی اور حکومتی نظام کی سمت کو درست کرنے اور ان کو جوابدہ بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ لیکن اگر یہ ہی گروپس جن کا کام ریاستی اور حکومتی نظام کی کڑی نگرانی کرنا اور ان کے مسائل پر سوالات اٹھانا اور ان کو جوابدہ کرنا ہوتا ہے وہ اگر خود ہی معاشرے کی سطح پر موجود طاقت ور گروپس اور اشرافیہ یا ریاستی و حکومتی نظام کے ساتھ باہمی گٹھ جوڑ کر لیں یا اپنے ذاتی مفادات کی بنیاد پر سیاسی سمجھوتے یا سیاسی خاموشی اختیار کر لیں یا ان کے ساتھ اپنے سیاسی تعلقات کو مضبوط بنا کر خود ان کی سیاست کا حصہ بن کر ان کے غلط کاموں کو تحفظ دینے
کا کام شروع کر دیں تو پھر اصلاح کے امکانات اور زیادہ محدود ہو جاتے ہیں۔ اس لیے سول سوسائٹی اور میڈیا کو بھی جوابدہ بنانا عوام کی ذمہ داری میں آتا ہے کہ وہ ان پر بھی سوالات اٹھائیں کہ ان کی سمت کیا ہے اور یہ کس کے ایجنڈے کے ساتھ کھڑے ہیں اور کیونکر یہ تمام موجود ادارے عوامی مفادات کے برعکس اپنے مفادات کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں۔
اس لیے اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی قومی سیاست کا بے لاگ و دیانت داری سے تجزیہ کریں اور بنیادی نوعیت کے وہ سوالات جو قومی سطح پر موجود ہیں ان کو تمام سیاسی اور غیر سیاسی فریقوں میں اٹھایا جائے اور پوچھا جائے کہ ان سوالوں کے جوابات کیا ہیں اور کیسے ہم اپنی منزل کا بہتر طور پر تعین کر سکتے ہیں۔ کیونکہ پاکستان نے اگر آگے بڑھنا ہے تو اس کے ایک نئے وژن اور نئی سوچ سمیت نئی سیاسی اور معاشی حکمت عملیاں درکار ہیں۔
یہ ہی حکمت عملیاں ہمیں مثبت انداز میں آگے بڑھنے کا راستہ دے سکتی ہیں، لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے ذہنوں کو کھلا رکھنا ہو گا اور موجودہ حالات میں ایک بہتری کے متبادل نقطہ نظر کو ہر سطح پر تسلیم کرنا ہو گا۔ ہم پہلے ہی بہت دیر کرچکے ہیں اور مزید دیر کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے سیاسی نفرتوں اور سیاسی تعصب یا سیاسی دشمنیوں کے کھیل سمیت ذاتیات پر مبنی سیاست سے باہر نکلیں اور یہ ہی حکمت عملی ہمیں بحرانوں سے نکلنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔بشکریہ ہم سب نیوز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔