(محمد بلال غوری)
(گزشتہ سے پیوستہ)
اسرائیل امریکی امداد لینے والے ممالک میں پہلے نمبر پر ہے۔آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے توامریکہ ہر اسرائیلی شہری کو سالانہ 500ڈالر کی امداد دیتا ہے جبکہ دیگر ممالک جنہیں ڈالروں کے طعنے دیئے جاتے ہیں ان کو فراہم کی جانے والی امداد کس قدر کم ہے اس کا اندازہ یوں لگائیں کہ امریکہ غریب ملک ہیٹی کے شہریوں کو سالانہ فی کس27ڈالر، مصر کے ہر شہری کو سالانہ 20ڈالر جبکہ ہر پاکستانی کو فی کس 5ڈالر دیتا ہے۔امریکہ 2005ء تک اسرائیل کو 154بلین ڈالر کی براہ راست عسکری و معاشی امداد دے چکا ہے۔واضح رہے کہ یہ قرضے نہیں بلکہ گرانٹس ہیں۔
امریکہ اسرائیل تعلقات آغاز سے ہی ایسے نہیں تھے۔ ہیری ٹرومین نے 1947ء میں اس خطے کے بٹوارے سے متعلق اقوام متحدہ کی قرارداد کی حمایت ضرور کی اور اس کے فوری بعد اسرائیل کو تسلیم بھی کرلیا مگر تب یہ حمایت محض سفارتی اور سیاسی سطح تک محدود تھی۔بعد ازاں صدر آئزن ہاور کے دور میں بھی یہی پالیسی رہی ۔امریکی انتظامیہ کو اِدراک تھا کہ اسرائیل کو بھینچ کر گلے لگا لیا گیا تو عرب ممالک سے تعلقات خراب ہو جائیں گے۔ امریکی انتظامیہ نے اسرائیل کی اسلحہ خریدنے کی درخواست بھی مسترد کر دی۔ستمبر 1953ء میں جب امریکہ نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ دریائے اردن کا پانی روکنے کیلئے نہر کھودنے کا کام روک دیا جائے اور اسرائیل نہ مانا تو امریکی وزیر خارجہ John Foster Dullesنے امداد معطل کرنے کی دھمکی دی جو کام کر گئی اور 27اکتوبر 1953ء کو اسرائیل نے منصوبے پر کام روک دیا ۔
اسرائیل نے 1956ء میں نہر سویز کی جنگ میں مصر کے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا ،انہیں بھی امریکی دھمکی کے بعد خالی کیا گیا۔مگر پھر امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے دور میں اسرائیل امریکہ کا بغل بچہ بن گیا ۔کینیڈی نے اسرائیلی وزیر خارجہ گولڈامیئر کو بتایا کہ ’امریکہ کا اسرائیل سے خاص رشتہ ہے‘اور یہ یقین دہانی بھی کروائی کہ کسی بھی حملے کی صورت میں امریکہ اسرائیل کا دفاع کرے گا۔امریکی انتظامیہ نے 1963ء میں اسرائیل کو Hawk antiaircraft Missileدینے کی منظور ی دی اور پھر 1964ء میں 200ایم 48Aٹینک دیئے گئے۔1949ء سے 1965ء تک امریکہ اسرائیل کو سالانہ 63ملین ڈالر کی امداد دے رہا تھا مگر 1966ء سے 1970تک اسرائیل کو دی جانے والی امریکی امداد 102ملین ڈالر سالانہ ہوگئی۔
جب تک 1973ء میں یوم کپور کی جنگ چھڑی تب تک اسرائیل امریکی امداد وصول کرنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر آچکا تھا۔1971ء میں امریکہ اسرائیل کو سالانہ 634.5ملین ڈالر دے رہا تھا جس میں سے 85فیصد فوجی امداد تھی۔امریکہ ڈائریکٹ فارن اسسٹنس پروگرام کے تحت جو بجٹ مختص کرتا ہے ،اس کا چھٹا حصہ صرف اسرائیل کو دیا جاتا ہے ۔سالانہ 3بلین ڈالر میں سے 75فیصد فوجی امداد ہے جو امریکی GDPکا 2فیصد بنتی ہے۔
اگرچہ 3بلین ڈالر کی سالانہ امداد بھی بہت زیادہ ہے مگر بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔امریکی ایوان نمائندگان کے سابق رُکن lee hamilton نے انکشاف کیا تھا کہ اسرائیل کو دی جانے والی امریکی امدادسے متعلق اعداد و شمار درست نہیں اور اگر دیگر مدات میں دی جانے والی امداد کا بھی شمار کیا جائے تو امریکہ ہر سال 4.3بلین ڈالر اسرائیل کو دے رہا ہے۔سرکاری سطح پر دی جارہی امداد کے علاوہ امریکی شہری اپنے طور پر بھی اسرائیل کو فنڈز فراہم کرتے ہیں ۔امریکی شہری ہر سال اسرائیل کو 2ارب ڈالر ڈونیشن دیتے ہیں ۔ فرینڈز آف اسرائیل ڈیفنس فورسز کے نام سے کام کر رہی ایک سوسائٹی نے نیو یارک میں عشائیے کا اہتمام کیا تو ایک ہی رات میں 18ملین ڈالر جمع ہوگئے۔
امریکی امداد وصول کرنے والے ممالک میں سے اسرائیل کا معاملہ اس لئے مختلف ہے کہ اسرائیل دیگر ممالک کی نسبت زیادہ آسان شرائط پر امداد وصول کرتا ہے۔زیادہ تر ممالک کو یہ امداد سہ ماہی اقساط کی صورت میں دی جاتی ہے مگر 1982ء میں Annual foreign aid bill میں ایک خصوصی شق شامل کردی گئی کہ اسرائیل کو نیا مالی سال شروع ہونے کے بعد 30دن کے اندر پورے سال کی امداد یکمشت ادا کر دی جائے گی۔ چونکہ امریکی بجٹ خسارے میں چل رہا ہوتا ہے اسلئے اسرائیل کو سال کے شروع میں ہی لم سم ادائیگی کرنے کیلئے ادھار لیکر رقم کا بندوبست کرنا پڑتا ہے اور اس پر سود کی ادائیگی میں امریکی خزانے کو سالانہ 50سے60ملین ڈالر نقصان اُٹھانا پڑتا ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت3بلین ڈالر یکمشت وصول کرنے کے بعد یہ رقم امریکی خزانے میں ہی رکھوادیتی ہے اور اس پر سود وصول کرتی ہے۔ اسرائیل کو سود کی مد میں بھی امریکہ2004ء تک 660ملین ڈالر کی اضافی ادائیگی کرچکا ہے۔ فارن ملٹری فنانسنگ پروگرام کے تحت امداد لینے والے ممالک پابند ہیں کہ یہ رقم امریکہ میں ہی خرچ کریں یعنی امریکی کمپنیوں سے اسلحہ اور دفاعی ساز و سامان خریدیں مگر اسرائیل کو یہ استثنیٰ حاصل ہے کہ ہر چار میں سے ایک ڈالر یہاں خرچ کرے اور تین ڈالر جہاں مرضی لے جائے۔ امریکی امداد وصول کرنیوالے ممالک میں سے اسرائیل وہ واحد ملک ہے جسے حساب کتاب نہیں دینا پڑتا۔باقی ممالک کو امداد مخصوص مدات میں دی جاتی ہے جیسا کہ ایڈز کے تدارک کا پروگرام ،انسداد منشیات پروگرام،بچوں کی صحت وغیرہ مگر اس استثنیٰ کی وجہ سے امریکی انتظامیہ کیلئے یہ معلوم کرنا ممکن نہیں کہ اسرائیل یہ رقوم کہاں خرچ کر رہا ہے ۔بشکریہ جنگ نیوز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔