(خالد ولید سیفی)
فلسطین اسرائیل تنازعہ بلکہ فلسطین پر اسرائیلی قبضہ دہائیوں سے ہے اور اہل فلسطین کی مزاحمت بھی قبضے کے پہلے دن سے چلی آ رہی ہے، 7 اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر طوفان الاقصی کے نام سے تاریخ کا سب سے بڑا حملہ کیا، یہ حملہ اس قدر اچانک اور منظم تھا کہ اسرائیل کو سنبھلنے کا موقع نہ ملا، حملے نے ایک طرف حماس کی کامیاب جنگی حکمت عملی دنیا کے سامنے پیش کی دوسری طرف اسرائیل کے مضبوط دفاع کا پول بھی کھول دیا، حماس حملے اور اس کے ردعمل میں اسرائیل کی بربریت نے مسئلہ فلسطین کو ایک بار پھر دنیا کے سامنے اجاگر کیا۔
حماس حملے کے بعد اسرائیل نے جس طرح غزہ کی پٹی میں ظلم کی داستاں رقم کی وہ ناقابل بیاں ہے، اس وقت غزہ پر بارود کی بارش برس رہی ہے، غزہ کی سڑکیں، گلیاں، شہر، محلے سب المناک کہانی کی تصویر ہیں، نہ تعلیمی ادارے محفوظ رہے ہیں نہ ہسپتال بخشے گئے ہیں، اسرائیلی انتقام اور جنگی جنون سب کچھ مٹانے کے درپے ہیں، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کی مزاحمت بارود کے مقابلے میں ہمیشہ کامیاب رہی ہیں۔
خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ہی برطانیہ کی سربراہی میں فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کی آباد کاری کا منصوبہ شروع ہوا اور 1948 کو یہودی ریاست کے اعلان کے ساتھ یہ مشن اپنی تکمیل تک پہنچا، دنیا بھر میں بکھرے یہودیوں کو فلسطین میں آباد کیا جانے لگا، دوسری جنگ عظیم میں نازی حکومت کے ہاتھوں ہولوکاسٹ کا واقع ہوا تو اس کے بعد فلسطین میں یہودی آبادکاری میں تیزی آئی، اقوام متحدہ نے 1947 کو باقاعدہ فلسطین کو یہودی اور مسلمان ریاستوں میں تقسیم کیا، اس وقت فلسطین برطانیہ کے زیر کنٹرول تھا، برطانیہ نے فلسطین پر خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ہی قبضہ کیا تھا، اقوام متحدہ کی جانب سے فلسطین کی تقسیم کو عرب ممالک اور مسلمانوں نے مسترد کر دیا، 1948 کو برطانیہ نے فلسطین سے جب اپنا قبضہ ختم کیا تو اس کے ساتھ یہودیوں نے صہیونی ریاست کا اعلان کیا اس وقت سے لے کر آج تک مزاحمت جاری ہے، ابتداء میں عرب دنیا اس مزاحمت میں فلسطین کے ساتھ تھی مگر آہستہ آہستہ عرب دنیا نے خود کو مسئلہ فلسطین سے الگ کر دیا اور اس وقت حماس اپنے زور بازو پر مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حماس سے قبل پی ایل او ( فلسطین لبریشن آرگنائزیشن ) فلسطین کی نمائندہ تنظیم سمجھی جاتی تھی، پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات تھے، جنہوں نے 1987 کو اسرائیل کے خلاف انتفادہ ( بغاوت ) کی قیادت کی، 1993 کو اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں امن معاہدہ ہوا، جس میں پی ایل او نے اسرائیلی ریاست کو تسلیم کیا، جبکہ اسرائیل نے بھی مذاکرات کے نتیجے میں بننے والی فلسطینی اتھارٹی پر اتفاق کیا، لیکن حماس نے اوسلو معاہدے کو مسترد کر کے اسرائیل کے خلاف مزاحمت جاری رکھنے کا اعلان کیا، جو اب تک جاری ہے، فلسطینی علاقے مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی پر فلسطینی اتھارٹی کی حکومت تھی 2005 کو غزہ کی پٹی پر حماس نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اس کے بعد سے اب تک غزہ پٹی حماس کے زیر کنٹرول ہے اور اسرائیل پر حالیہ حملہ غزہ کی پٹی سے کیا گیا جو حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے کیا۔
غزہ پر حماس کی جیت کے بعد غزہ پر مسلسل اسرائیلی کی ناکہ بندی ہے، غزہ کی آبادی تقریباً 23 لاکھ کے لگ بھگ ہے، غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بھی کہا جاتا ہے، یہ بحیرہ روم کے ساتھ ایک چھوٹی سے پٹی ہے جس کی لمبائی 45 کلو میٹر اور چوڑائی 25 کلو میٹر ہے، جبکہ دوسری جانب اسرائیل ہے، جنوب میں ایک چھوٹے حصے پر مصر کی سرحد ہے، جہاں رفاء کراسنگ کے نام پر ایک راستہ ہے جو آمد ورفت کے لیے بند ہے، اہل غزہ، غزہ میں مستقل قیدی کی زندگی بسر کرتے ہیں، اسرائیل کی خواہش ہے کہ غزہ سے حماس کو بے دخل کر کے یا اس پر مستقل اسرائیل قابض رہے یا اسے محمود عباس کی تنظیم کے کنٹرول میں دیا جائے، کیونکہ اسرائیل کے خلاف حماس ہی ہے جو مزاحمت برقرار رکھے ہوئے ہیں، اسرائیل سمجھتا ہے کہ حماس کے خاتمے یا کمزور ہونے کی صورت میں اسرائیل خود کو زیادہ محفوظ تصور کرے گا۔
دنیا بھر کو انسانی حقوق بلکہ جانوروں کے حقوق تک، کا درس دینے والی مغربی دنیا کا کردار شرمناک ہے، اسرائیلی حملے میں اب تک ساڑھے چار ہزار لوگ شہید ہوچکے ہیں جن میں نصف تعداد بچوں کی ہے، تیس ہزار سے زائد لوگ زخمی و اپاہج ہیں، پانی، کھانا، دوائیں ختم ہیں، غزہ مکمل محاصرے میں ہے، امدادی سامان رفاء کراسنگ پر موجود ہیں انہیں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے، عالمی قوانین صرف افغانستان، عراق، لیبیا اور اسلامی ممالک کے لیے بنائے گئے ہیں، جب مسلمانوں پر قیامت صغری بپا ہو تو عالمی قوانین کا سر ریت میں چھپا ہوتا ہے۔
یہ بھی ایک بڑا سوال ہے، کہ امت مسلمہ کہاں ہے، اسلامی دنیا کہاں کھڑی ہے، او آئی سی کس بلا کا نام ہے، عالم اسلام نے دنیا کی تمام حاکمیت ملت کفر کے حوالے کر کے اپنی غلامی کی زنجیروں کو خود مضبوط کیا ہے اور آج اہل فلسطین کی چیخ اندر ہی اندر گھٹ کر مر جاتی ہیں مگر امت مسلمہ کے کانوں تک نہیں پہنچ پاتی ہیں۔
آج پورے عالم اسلام میں
غزہ تنہا کھڑا ہے!
اہل غزہ کے لیے آج اگر کوئی تنظیم عملاً اپنے واضح موقف کے ساتھ پوری شد و مد سے کھڑی ہے وہ جے یو آئی پاکستان ہے، فلسطین کے مسئلے پر جے یو آئی کے موقف میں نہ کوئی لگی ہے نہ کوئی لپٹی ہے، طوفان الاقصی کے فوری بعد قائد جمعیت نے یوم طوفان الاقصی کے نام پر ملک بھر میں مظاہروں کا اعلان کیا، پشاور میں مفتی محمود رح کانفرنس کو اہل فلسطین کے نام کر دیا، جس میں حماس کے نمائندے شریک رہے اور آن لائن خطاب بھی کیا، اور 29 اکتوبر کو مولانا فضل الرحمن کی خصوصی ہدایت پر جے یو آئی بلوچستان نے ڈاکٹر سرفراز شہید کانفرنس کو طوفان الاقصی کانفرنس کے نام سے موسوم کر دیا ہے، جو اہل فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کی علامت ہوگی۔
غزہ کے ساتھ مالی تعاون کے لیے جے یو آئی کی مقامی تنظیموں نے ملک بھر میں امدادی کیمپ قائم کر دیے ہیں تاکہ مشکل کی اس گھڑی میں جتنا ممکن ہو ان کی مدد کی جا سکے۔
جمعیت علماء اسلام کو اس بات کا ادراک ہے کہ وطن عزیز میں عالمی اسٹیبلشمنٹ اقتدار بنانے کے کھیل کا بنیادی کھلاڑی ہے، اس وقت عالمی اسٹیبلشمنٹ بلا چوں چرا اسرائیل کے شانہ بشانہ ہے، اور ملک میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں، جے یو آئی کو اہل فلسطین کے ساتھ کھڑے ہونے کی سزا بھی دی جا سکتی ہے، جس طرح 2002 میں مولانا فضل الرحمن کو افغانستان کے ساتھ کھڑے ہونے کی سزا دی گئی، مولانا وزیراعظم بننے جا رہے تھے، پیپلز پارٹی کے ساتھ معاملات طے پا گئے تھے، کہ اچانک پی پی سے پیٹریاٹ نکلی اور ظفراللہ جمالی ایک ووٹ کے اضافے سے وزیر اعظم بن گئے۔بشکریہ ہم سب نیوز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔