(لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان)
نواز شریف صاحب کی خود ساختہ چار سالہ نئی جلاوطنی کے بعد مینارِ پاکستان پر ان کی تقریر پر تبصرے اور تجزیئے ہوتے رہیں گے،چونکہ منہ بہت سے ہیں اِس لئے باتیں بھی بہت سی ہوں گی،بلکہ یہ باتیں تو 21اکتوبر کی شب ساڑھے آٹھ بجے ہی شروع ہو گئی تھیں۔پاکستان کا ہر بالغ مرد و زن مبصر اور تجزیہ کار بنا ہوا ہے۔ میرا خیال ہے اِس موضوع پر کالم آرائی کارِ بے کاراں تصور ہونی چاہئے۔ تاہم اسی موضوع سے جُڑی ہوئی ایک بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
میرا خیال ہے، افواجِ پاکستان کے کرتا دھرتا بالآخر اب اِس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ پاکستان کے76سالہ بوڑھے جسم پر چِرکے لگانے والوں کا محاسبہ ضروری ہے۔یہ زخم اور یہ چِرکے کون سے ہیں اس کا ذکر ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک ”معتبر ٹاک شو“ میں گزشتہ دو ہفتوں سے جاری و ساری ہے۔اس شو کا دورانیہ ڈیڑھ گھنٹے کا ہوتا ہے (ساڑھے نو بجے شب سے گیارہ بجے شب تک) اس طول طویل ٹاک شو کا موضوع ”قومی ناسور مٹاؤ، پاکستان بچاؤ“ رکھا گیا ہے۔ سوموار سے جمعہ تک کے پانچ دنوں میں اب تک دس (10)ایسے ناسوروں کی طرف ناظرین و سامعین کی توجہ دلائی گئی ہے جو قوم کے ”بوڑھے جسم“ کو دیمک کی طرح کھائے چلے جا رہے ہیں۔ان موضوعات کو بہت سوچ سمجھ کر منتخب کیا گیا ہے۔ان میں پاکستان کی ڈولتی ڈوبتی ہوئی معیشت کا ذکر سب سے پہلے کیا گیا تھا۔
اس پر جن دانشوروں اور مبصروں کو دعوتِ گفتگو دی گئی تھی ان میں سابق وزرائے خزانہ، سابق بیورو کریٹ جن کا تعلق پاکستان کے معاشی شعبے سے تھا اور میڈیا کے وہ لوگ جو بالخصوص اس شعبے سے متعلق رہے ہیں (اور ہیں) ان کو بُلا کر ان کی آراء ہوا کے دوش پر بکھیری گئیں۔یہ بلاشبہ ایک سنجیدہ موضوع ہے اور اس کی اصطلاحیں سنجیدہ تر الفاظ و مرکبات سے لدی پھندی ہیں۔تاہم اس ٹاک شو کے اینکر کامران خان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ ان اصطلاحات سے نہ صرف یہ کہ بخوبی واقف ہیں بلکہ ان کے نشیب و فراز پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں اور ایسے ایسے سوالات اپنے مہمانوں سے کرتے ہیں جو بے حد مفید معنی آفریں اور سود مند ہوتے ہیں۔تقریباً دو تین دِنوں تک یعنی چار پانچ گھنٹوں تک یہ بحث چلتی رہی اور پاکستان کی قابل ِ رحم معاشی حالت کے بخیئے ادھڑتے رہے اور ادھیڑنے والوں کے خفیہ اور ظاہراً مفادات کا برملا ذکر کیا جاتا رہا۔
اس طرح پاکستان کی خارجہ پالیسی کے خدوخال اور ان سے وابستہ ہماری بین الاقوامی ناکامیاں بھی زیر بحث آئیں۔سابق وزرائے خارجہ اور سیکرٹری خارجہ صاحبان اُن امور پر نقطہ و نظر کرتے رہے جو پاکستان کے لئے ضروری تھے اور قوموں کی برادری میں ایک ممتاز مقام حاصل کرنے کے لئے لازمی بھی تھے لیکن ہمارے سول اور ملٹری حکام بالا نے ان موضوعات پر کوئی توجہ نہ دی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان خارجی محاذ پر دوسری ترقی کرتی قوموں کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا۔آج ہمارے مشرقی ہمسائے کو اس سلسلے میں کئی کامیابیاں حاصل ہو چکی اور ہو رہی ہیں ان کا ذکر کیا گیا۔
ان موضوعات کے بعد پاکستان کی برآمدات گرنے کے اسباب بھی گنوائے گئے۔اُن وجوہات کا ذکر کیا گیا جن کے باعث ہر سال ہماری برآمدات سکڑتی چلی گئیں۔اس موضوع پر جن ماہرین کو دعوتِ کلام دی گئی ان کے تبصرے چشم کشا تھے۔
ایک اور قومی ناسور کا تعلق سمگلنگ سے بھی تھا۔اِس ناسور نے پاکستان کی معیشت کو جو نقصان پہنچایا وہ کثیر و شدید اور بے اندازہ تھا۔حالیہ ایام میں نگران حکومت نے جو اقدامات سمگلنگ کی روک تھام کے لئے کئے ہیں، ان کے مثبت نتائج دکھائی دینے شروع ہو چکے ہیں۔ پٹرول کی گرتی ہوئی قیمتیں، ڈالر کی اڑان میں کمی اور پاکستانی روپے کی قدر میں استحکام آ رہا ہے۔مستقبل دیدہ میں امید کی جانی چاہئے کہ اگر اس روش کو جاری رکھا گیا تو اس سے بہتوں کا بھلا ہو گا۔
ایک اور سلگتا ہوا موضوع عدلیہ، انتظامیہ اور فوج کی کار گزاری پر بھی تھا۔اس ٹاک شو کا اینکر جب جاوید جبار صاحب سے گفتگو کرنے لگا تو انہوں نے برملا کہا:”آپ عدلیہ اور پارلیمان (انتظامیہ) کا نام تو لیتے ہیں لیکن فوج کی جگہ اسٹیبلشمنٹ کا نام کیوں لیتے اور افواجِ پاکستان کہنے میں کیا ”شرم“ محسوس کرتے ہیں؟“…… ہم آج بھی میڈیا پر فوج کا نام لینے سے کتراتے اور گھبراتے ہیں۔ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہئے۔اس موضوع پر عدلیہ کے ریٹائرڈ جج صاحبان اور بزرگ سیاست دانوں کو بھی دعوتِ تبصرہ دی گئی اور سب کا جواب یہی تھا کہ عدلیہ اور انتظامیہ پر جس تیسرے عنصر کا اثر سایہ فگن ہے وہ خواہی نخواہی بہت زیادہ ہے۔آج پاکستان کو اِس سلسلے میں آئین و قانون اور عدل و انصاف کا جو فقدان نظر آتا ہے وہ ساری قوم کے لئے وجہ ئ تشویش ہے اور اس تناظر میں ساری پاکستانی قوم اس فقدان کی ذمہ دار ہے۔
ایک اور موضوع18 ویں ترمیم پر بھی تھا۔برسوں پہلے اس کی منظوری نے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا اور36فیصد آئین کا حصہ بدل دیا گیا۔صوبوں کو جو اختیارات دیئے گئے اور بجٹ کا جو حصہ عطا کیا گیا، وہ حیران کن تھا۔بتایا گیا کہ صوبوں کو سالانہ آمدن کا57.5 فی صد اور مرکز کو42.5فی صد ملتا ہے۔ اور مرکز کو جو اخراجات ادا کرنے ہوتے ہیں،ان کو دے کر یکم جولائی کو مرکزی حکومت کو ادھار مانگ کر آگے بڑھنا پڑتا ہے۔
18ویں ترمیم کے اصل ”معمار“ سیاستدان تھے۔ انہوں نے صوبوں کو اختیار دے کر مرکز کی جیبیں خالی کر دیں اور صوبوں کی جیبیں بھر دیں۔علاوہ ازیں صحت، تعلیم،زراعت وغیرہ کے شعبے بھی مرکز سے لے کر صوبوں کو دے دیئے گئے۔ان شعبوں کا کنٹرول سنبھال کر صوبائی حکمرانوں نے وہ ”اودھم“ مچایا کہ جو گویا سارے ”ا ودھموں“ کی مادرِ مہربان ہے۔اس موضوع پر تبصرہ کرنے کے لئے جن زعمائے قوم کو دعوت دی گئی وہ اِس امر پر متفق تھے کہ اس ترمیم کو واپس ہونا چاہئے اور آئین کی سابق صورت بحال ہونی چاہئے۔
اس طرح اور موضوعات پر بھی بحث و مباحثہ ہوتا رہا۔ یہ مختصر سا کالم ان تمام موضوعات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں پاکستان کے زخموں کا پتہ موجودہ فوجی حکمرانوں نے چلا لیا ہے اور اب ان کا ارادہ ہے کہ وہ ان ”ناسوروں“ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا سامان کریں۔ تاہم یہ ایک مشکل چیلنج ہے اور افواجِ پاکستان اس چیلنج سے عہدہ برآ ہونے کی عوامی حمایت اور زمانی استطاعت نہیں رکھتیں۔اس بیماری کا واحد علاج الیکشن ہی ہیں اور وہ بھی صاف شفاف اور بے داغ الیکشن……۔
نجانے مجھے نواز شریف صاحب کی واپسی،ان کی مینارِ پاکستان والی تقریر اور پی ٹی آئی کو کاہنہ کاچھا میں اپنا سیاسی جلسہ منعقد کرنے کی اجازت کیوں ایسے سراغ دے رہی ہے جس سے شاید برف پگھلنے کا گمان گزرتا ہے۔بشکریہ ایکسپریس نیوز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔