(مظہر برلاس)
پاکستان میں اصلی اور پرانے لاڈلے کی فلمی تشہیر جاری ہے مگر مجھے غزہ اور فلسطین پر لکھنا ہے۔ کسی سیاسی شعبدہ بازی کی بجائے میرے لئے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث اہم ہیں۔ میں اپنے ایمان پر سیاست کو غالب نہیں آنے دیتا اور پھر کرائے کی سیاست تو کرائے کے قاتلوں کی طرح ہوتی ہے، جنہیں مارے جانے والوں کی عظمت کا احساس تک نہیں ہوتا۔ فلسطینیوں پر ہونیوالے اسرائیلی مظالم نے دلوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اپنے اپنے حکمرانوں کے ہاتھوں مجبور لوگ احتجاج اور دعاؤں تک محدود ہو گئے ہیں۔ بمباری کا سلسلہ جاری ہے، قدرت دکھا رہی ہے کہ شہدا کی لاشوں سے کستوری کی انمول خوشبو آ رہی ہے مگر اسلامی ریاستوں کے حکمران عملی طور پر چپ ہیں۔ ان کی غفلت کی نیند میں غزہ کی شاعرہ حبا کمال ابو ندا شہید ہو گئی ہیں، کیا خوبصورت شاعرہ اور ناول نگار تھیں۔حبا کمال 1991ء میں سعودی عرب میں ایک فلسطینی خاندان میں پیدا ہوئیں۔ اس خاندان کو 1948 ء میں جبری طور پر بےگھر کر دیا گیا تھا۔ حبا نے غزہ یونیورسٹی سے کلینکل نیوٹریشن میں ماسٹر کیا اور بائیو کیمسٹری میں ماسٹر ڈگری بھی حاصل کی۔
32 سالہ حبا کمال نے’’ آکسیجن از ناٹ فار دا ڈیڈ‘‘ نامی ناول لکھا ۔حبا کمال نے گزشتہ روز اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر لکھا کہ اگر ہم مرجائیں تو جان لیں کہ ہم ثابت قدم اور سچے ہیں۔ حبا کمال اکثر عربی اور انگریزی میں پوسٹیں لگاتی تھیں۔ انہوں نے 2روز قبل انگریزی میں جو پوسٹ لگائی ،اس میں لکھا کہ’’ہم چیخ اور چلا نہیں سکتے، ہم اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں سے مل نہیں سکتے اور نہ ہی ہم ایک دوسرے کے حالات سے آگاہ ہو سکتے ہیں ، آج ہم موت کے دہانے پر کھڑے ہیں اور کسی بھی وقت مر سکتے ہیں۔‘‘آج کل جن چیزوں کے بائیکاٹ کا کہا جا رہا ہے ان چیزوں کا غریبوں کو تو علم ہی نہیں اور جو امیر لوگ یہ چیزیں استعمال کرتے ہیں انہیں بیت المقدس کا پتہ نہیں۔ انہیں سلطنت عثمانیہ کی بھی کوئی خبر نہیں۔ انہیں یہ بھی پتہ نہیں ہو گا کہ القدس مسلمانوں کے پاس تھا،ہنستا بستا شہر تھا، جس میں مسلمان عزت و آبرو سے رہتے تھے۔ انکے بچے محفوظ تھے اور انکی مائیں بہنیں اور بیٹیاں بھی سکون سے زندگی گزار رہی تھیں۔ پھر کچھ مسلمانوں نے برطانیہ کیساتھ مل کر سلطنت عثمانیہ کیخلاف بغاوت کی اور نتیجہ یہ نکلا کہ القدس صہیونیوں کے ہاتھ میں چلا گیا۔ زیادہ پرانی بات نہیں، یہ 10 جون 1916ءکی بات ہے۔ جب ایک معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں عربوں نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کی، اس بغاوت کو ’الثورۃ العربیہ الکبری‘ کا نام دیا گیا، اس بغاوت کا پرچم برطانوی سفارتکار نے تیار کیا تھا۔ پرچم تیار کرنے والے سفارت کار کرنل مارک سائیکس صہیونیوں کے بہت قریب تھے۔ اسرائیل کے قیام میں ان کا کردار بہت اہم تھا۔ بغاوت شروع ہوئی تو ایک وقت ایسا آیا کہ یروشلم کا محاصرہ کر لیا گیا۔
عثمانی فوج لڑکر ہار گئی، اس ہار کی بڑی وجہ بغاوت تھی۔ ایک طرف برطانوی اور اتحادی افواج یروشلم پر حملہ آور تھیں تو دوسری جانب عرب بغاوت نے ترکوں کی سپلائی لائن کو ادھیڑ کر رکھ دیاتھا، یوں سلطنت عثمانیہ بے بس ہو گئی۔ اس جنگ میں ہندوستان سے فوجیوں کی بڑی تعداد نے شامل ہوکر اتحادی افواج کو افرادی قوت سے بے نیاز کر دیا تھا۔ آج شاید بہت ہی کم لوگوں کو معلوم ہوکہ جب القدس مسلمانوں سے چھن گیا اور سلطنت عثمانیہ ہار گئی تو برطانوی فوج کا جو پہلا دستہ مقدس شہر میں داخل ہوا وہ’’نعرہ تکبیر‘‘ بلند کرتے ہوئے داخل ہوا۔ 11دسمبر 1917ء کو جب یروشلم مسلمانوں سے چھن گیاتو پھر بغاوت کرنے والوں کےساتھ کیا ہوا؟ پورے چاؤ سے’الثورۃ العربیہ الکبری‘ چلانے والے شریف مکہ چند ماہ ہی حکومت کر سکے پھر جلاوطن ہوئے اور مر گئے۔ اتفاق دیکھیے کہ عرب بغاوت کے ذریعے یروشلم سے مسلمانوں کے اقتدار کے خاتمے کی راہ ہموار کرنے والا یہ شخص یروشلم ہی میں دفن ہے۔ کیا پتہ اسکی روح راتوں کو مسجد اقصی کے نواح میں بھٹکتی ہو اور دیکھتی ہو کہ میرے اعمال نے مسلمانوں کو کیا دن دکھائے، اسرائیل نے یروشلم شہر پر قبضہ کر کےصرف کاغذی طور پر مسجد اقصی کو اردن کے شاہی خاندان کے زیر انتظام دیا۔
رہی سہی کسر دو پاکستانیوں نے پوری کردی،1969 ءمیں ضیا الحق اور خاقان عباسی نے اردن کے امن مشن میں شامل ہو کر کم از کم پچیس ہزار فلسطینی مسلمانوں کو شہید کیا،بعد میں ان دونوں شخصیات کو بڑے عہدوں سے نوازا گیا مگر پھر دونوں کی موت بھی عجیب واقع ہوئی۔ غلطیاں یقیناً سلطنت عثمانیہ سے بھی ہوئی ہوں گی، تبھی تو بغاوت ہوئی لیکن سلطنت عثمانیہ جیسی بھی تھی، اسرائیل جیسی سفاک تو نہ تھی۔القدس کے مسلمانوں پر یوں ظلم تو نہیں کرتی تھی۔ بے بسی کا یہ عالم تو نہ تھا،افسوس کہ آج مسلمان اپنے ہی گھروں کا قبضہ چھڑوانے کیلئے دنیا کی طرف دیکھ رہے ہیں،احتجاج کر رہے ہیں اور فلسطینی مسلمانوں کے لئے مسلمان ملکوں کے بزدل حکمران خاموشی سے بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں کہ بقول بہادر شاہ ظفر لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر وقرار بے قراری تجھےاے دل کبھی ایسی تو نہ تھی۔بشکریہ جنگ نیوز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔