(تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس)
بین الاقوامی سطح پر قدرتی آفات کی صورت میں امیر غریب سب ممالک میں خیمہ بستیاں وجود میں آتی ہیں اور کچھ عرصے بعد انہیں ختم کر دیا جاتا ہے۔آپ پچھلی چند دہائیوں کی تاریخ دیکھیں تو یوں لگتا ہے، گویا ساری خیمہ بستیاں مسلمان بے گھروں کے لیے ہی بنائی گئی ہیں۔ دوسری خیمہ بستیاں جنگ سے متاثرہ لوگوں کے لیے بنائی جاتی ہیں، سوات میں طالبان نے قبضہ کیا تو ان کے خلاف آپریشن کے لیے بڑے پیمانے پر بنوں اور دیگر ملحقہ علاقوں میں خیمہ بستیاں بنائی گئیں۔ ان بستوں میں انسانیت سسک رہی ہوتی ہے۔دنیا میں کچھ ایسی خیمہ بستیاں بھی بنائی گئیں، ان میں آنے والوں کو یقین تھا کہ بس جنگ تھمتے ہی ہم واپس اپنے اپنے گھروں میں چلے جائیں گے۔افسوس ایسا کبھی نہ ہوسکا اور 1948ء میں گھروں سے نکلنے اور خیموں میں آباد ہونے والوں کی بستیاں پہلے کچے گھروں، پھر پکے مکانات میں تبدیل ہوگئیں۔
خلیل، غزہ، نابلوس، بیروت، دمشق اور اردن سمیت کئی ممالک میں پناہ گزین کی حیثیت سے ہی زندگی بسر کرکے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ظلم یہ ہے کہ غزہ میں جو دنیا میں بے گھروں کی بڑی آبادیوں میں سے ایک کی شکل اختیار کرچکا ہے، اب مزاحمت اور بہادری کا استعارہ بن چکا ہے۔ ہر دس پندرہ سال بعد ان کے گھروں کو اسرائیلی طیارے زمین بوس کر دیتے ہیں، مگر پھر بھی یہ مزاحمت جاری رکھتے ہیں۔ ظلم دیکھیے کہ جتنے بم امریکہ نے افغانستان جیسے بڑے ملک پر پورے سال میں گرائے، صیہونی ریاست نے اتنے بم اس چالیس کلومیٹر لمبے اور چند کلومیٹر چوڑے علاقے پر ایک ہفتے میں گرا دیئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہمارے مراکز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ہمارے تیس کے قریب کارکنان کو قتل کیا جا چکا ہے۔
اب مزاحمت نے زور پکڑ لیا ہے، اب پتھر اور غلیل سے لڑنے کا دور گزر چکا ہے۔ اب راکٹ اور میزائل کھانے والے مارنے لگے ہیں۔ جب اپنے شہری قتل ہوتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ جب ہم قتل عام کرتے ہیں تو دوسروں کو کیسے تکلیف ہوتی ہے۔ مغرب اور امریکہ پوری طرح بے نقاب ہوچکا ہے، ان کے نزدیک انسان صرف صیہونی ہیں اور صرف انہی کے حقوق ہیں اور انہی کو اپنے تحفظ کا خود ساختہ حق ہے، یہ حق کسی اور کو حاصل نہیں ہے۔ دنیا بھر سے آئے آبادکاروں کو پہلی بار گھر بدری کا سامنا ہے۔ وہ جو طاقت اور ریاست کے زور پر فلسطینی زمینوں پر قابض ہوئے تھے، اردن اسرائیل سرحد پر بحیرہ احمر کے کنارے اسرائیل کے ساحلی شہر ایلات بندرگاہ پر خیمہ بستی میں مقیم ہو رہے ہیں۔ جہاں لبنان بارڈر اور غزہ کے کنارے موجود صیہونی قابض آبادکاروں کو لایا جائے گا۔
50 سالوں بعد پہلی بار اسرائیل میں ہوٹلز میں جگہ نہیں، شہر محفوظ نہیں، آج وہ اپنے علاقوں سے در بدر خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اب انہیں یہ محسوس کرنے کا موقع ملے گا کہ جب اپنے گھر سے نکالا جاتا ہے تو وہ احساس کیسا ہوتا ہے؟ جب انسان اپنے بچوں کے سوالات کے جوابات نہیں دے پاتا تو کیسا لگتا ہے؟ اسرائیلیوں کے ایئرپورٹ کھلے ہوئے ہیں اور تقریباً اسرائیل کی اکثر آبادی کے پاس دہری شہریت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو یہاں آئے زیادہ عرصہ گزرا ہی نہیں ہے۔ بہت سے ایسے ہیں، جنہوں نے بس اسرائیل کی شہریت لی اور اپنے اصل ملک میں ہی رہے، یہاں آتے جاتے ہیں اور کچھ لوگ یہاں رہتے ہیں۔ اہل فلسطین کی دہری شہریت نہیں ہے۔ ان کے پاس صرف فلسطین ہے، جہاں پر ان کے لیے ان آبادکاروں نے زمین تنگ کر دی ہے۔ اب صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ امریکہ سمیت مغربی ممالک کے شہری بڑی تعداد میں واپس پلٹ گئے ہیں۔ خود اسرائیلی بڑی تعداد میں ایئرپورٹس پر خوار ہو رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی بھی دستیاب پرواز سے اسرائیل چھوڑ دیں۔
اسرائیل کو ابھی تک فضائی برتری حاصل ہے، جس کا وہ فائدہ اٹھاتے ہوئے اہل فلسطین کو خاک و خون میں نہلا دیتا ہے۔ وہ وقت دور نہیں، جب اس کے جہاز بھی فلسطینی زمینوں سے نہیں گزر سکیں گے۔ امریکی اور یورپی حمایت سے اور اپنوں کی غداری سے اسرائیل کے خلاف اڑتالیس و چوہتر کی جنگیں ناکام رہیں، اب تو یہ صورت حال ہے کہ قابض صہیونی تل ابیب میں سڑک کنارے بیٹھ کر حماس کو ختم کر دینے کی دھمکی دے رہے تھے۔ اچانک میزائل فضا میں بلند ہونے پر سائرن بجنے لگا، پھر جو اس کا حال ہوا، وہ وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اسرائیل کی موجودہ نسل لڑنے کے لیے تیار نہیں ہے اور بہت سے لوگ تو اب ویسے ہی لڑائی سے تنگ آچکے ہیں۔ اس لیے مذہب پر عمل کرنے والے بہت سے یہودی جنگ کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔
مزمل حاتمی صاحب کے مطابق اسرائیل کو جنگ شروع ہونے سے اب تک روزانہ 300 سے 400 ملین ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے اور وہ مکمل معاشی مفلوج کا شکار ہے۔ عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے اسرائیل کی معاشی تباہ حالی پر ریٹنگ کم کر دی ہے، جبکہ قابض ریاست آج امریکی فوری امداد کا محتاج ہوگیا ہے۔ امریکی مدد نہ ہو تو اسرائیل ایک دن فلسطینی مجاہدین کے سامنے کھڑے نہیں رہ سکتا۔ تاحال 50 فوجی کارگو جہازوں میں 12500 ٹن فوجی اسلحہ اسرائیل امریکہ و نیٹو ممالک سے حاصل کرچکا ہے۔ اسرائیل معیشت کو پہنچنے والے 30 ارب ڈالرز کا نقصان کیسے پورا کرے گا۔؟ 7 اکتوبر جنگ کے پہلے دن سے اب تک 45 فوجی کارگو طیارے اسر ائیل اتر چکے ہیں، جن میں 1000 ٹن سے زائد فوجی سامان اور بھاری ہتھیار اسرائیل کو مہیا کیا گیا، تاکہ وہ حزب اللہ اور فلسطینی مجاہدین کا مقابلہ کرسکے۔
مزید 10 ارب ڈالر کے ہتھیار امریکہ فوری مہیا کر رہا ہے۔ اس سب کے باوجود نتیجہ یہ ہے کہ امریکی جہاز دور کھڑے ہیں، اسرائیلی ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں غزہ کی بارڈر پر جمع ہیں، زمین پر فلسطینی موجود ہیں، جو زمینی حملے کا انتظار کر رہے ہیں۔ کچھ بستیاں سمندر کنارے بنا دی گئی ہیں اور ان میں بہت سے صیہونی آچکے ہیں۔ فلسطینی تو پہلے بھی خون دے رہے تھے، اب بھی خون دے رہے ہیں۔ ایک بات انہوں نے اسرائیل اور امریکہ دونوں کو سمجھا دی ہے کہ اس تنازعہ کے آبرومندانہ حل کے بغیر خطے میں امن خواب ہی رہے گا۔اسرائیل اپنے لیے امن جیت نہیں سکتا، وہ سو سال بھی تشدد کر لے اسے زمین کے اصل مالکوں کو زمینیں واپس کرنا پڑیں گے۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔