اتوار , 10 دسمبر 2023

فتح مبین

(تحریر: سیدہ مرضیہ نقوی)

سیاہ دھویں اور فاسفورس کی جان لیوا بدبو کے درمیان گولی اور بارود کی گرجدار آوازوں میں ایک ننھی سی جان آنکھ کھولتی ہے۔ جس کو اپنے والدین کی آنکھوں کا نور اور امید ہونا چاہیئے، مگر یہ کیا کہ وہی ماں اس ننھے فرشتے کے ننھے پیر پر اس کا نام لکھ رہی ہے، تاکہ بعد از شہادت اس کا فرزند گمنام نہ رہ جائے اور اس کی شناخت ہوسکے۔ یہ عجب جرأت و بہادری ہے۔ یہ ماں اپنے ننھے مجاہد کو شہادت کے لیے تو تیار کر رہی ہے، مگر اپنے وطن سے فرار پر آمادہ نہیں۔۔۔

یہ غزہ ہے!
اسی غزہ میں بیس سال پیچھے جائیں تو 365 مربع کلومیٹر کی اس پٹی پر غاصب اسرائیل نے مکمل قبضہ کر لیا تھا۔ اس کی سرحدوں پر اپنی فوج تعینات کر دی اور دنیا سے اس کا تمام فضائی و زمینی رابطہ منقطع کر دیا۔ حتی بین الااقوامی تجارت (import /export) پر بھی پابندی عائد کر دی۔ غزہ کے مظلومین نے اپنے طور پر ہر قسم کی مزاحمت کی اور وسائل نہ ہونے کے باوجود وہاں کے بہادر بچوں نے پتھروں اور غلیلوں سے صیہونیوں کا مقابلہ کیا۔ مگر حالات سالہا سال مزید بگڑتے گئے اور اسرائیل کی جارحیت اس حد تک بڑھ گئی کہ غزہ میں کھانے اور پانی کی فراہمی تک روک دی گئی۔ "calorie count” کا اصول رائج کر دیا، جس کے مطابق غزہ میں فقط اتنی ہی غذا فراہم کی جاتی، جس سے وہاں کے لوگ فقط زندہ رہ سکیں۔۔۔ پانی کی صورتحال دیکھی جائے تو غزہ کا 99 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں اور جان لیوا ہے۔۔۔

پھر آئے دن نسل پرست اسرئیلی فوج غزہ پر حملے کرتی ہے، ان کے بچوں کو قتل کرتی ہے اور عورتوں کو یرغمال بنا کر لوٹ مار کرتی ہے۔۔۔ یہ ظلم بڑھتا گیا اور غزہ کے مسلمان یہ سوچنے لگے کہ کیا پیغمبرﷺ نے نہیں فرمایا تھا کہ "تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں۔ جب جسم کا ایک عضو تکلیف میں ہو تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔” (صحیح مسلم) پھر تمام مسلم امہ کیوں خاموش ہے؟ کوئی ہماری مدد کیوں نہیں کرتا؟ خیر ایسا بھی نہیں کہ مسلم امہ بالکل خاموش رہی، کچھ مسلم ممالک نے جن میں سرِفہرست ایران ہے، غزہ کے مظلومین کی اقتصادی و عسکری معاونت کی۔ مگر آخر کار ظلم کی طویل سیاہ رات کے بعد اہل غزہ یہ بات سمجھ گئے کہ بیرونی طاقتیں ہمیں ہمت و ہتھیار تو مہیا کر دیں گی، مگر اس ہتھیار کو چلانا ہم نے خود ہے۔ بالاآخر 7 اکتوبر 2023ء کو حماس (فلسطینی مزاحمتی تحریک) نے اسرائیل پر حملہ کیا، جو گذشہ 70 سالہ اسرائیلی جارحیت کا نتیجہ تھا۔۔۔

میں حیران ہوں کہ تقریباً 70 سالہ ظلم و بربریت اور انسانی حقوق کے استحصال پر اقوام متحدہ خاموش رہی اور مظلوم کے ایک جوابی حملے کو دہشت گردی کا نام دے دیا گیا! آفرین ہے انسانی حقوق کے ایسے دعوےداروں پر۔۔ حبیب جالب انہی کے متعلق فرماتے ہیں کہ
تم وحشی ہو تم قاتل ہو
ناموس کے جھوٹے رکھوالو
بےجرم ستم کرنے والو
اے ظلم و جبر کے متوالو
تم حق کے نام پہ باطل ہو

جبکہ غزہ کے مظلومین نے تو فقط پیٹرک ہینری کے اس انگریزی مقولے پر عمل کیا: "Give me liberty or give me death” کیونکہ وہاں تو جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسی دن مر جاتا ہے، کیونکہ اس کو بنیادی انسانی حقوق ہی حاصل نہیں تو زندگی کا کیا تصور۔۔ ایسے میں یہ حملہ دنیا کو متوجہ کرنے لیے تھا کہ

یہ کوٹھی جو تم کو نظر آرہی ہے
جو اپنی اداؤں پہ اترا رہی ہے
اگر اس کے گملوں کی خوشبو کو سونگھو
تو خونِ شہیداں کی بُو آرہی ہے

کہتے ہیں کہ ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ آج اسرائیل کا سیاہ چہرہ بھی دنیا کے سامنے آشکار ہوگیا۔ ایسے میں ہم سب کا فرض ہے کہ اگر جہاد کرکے اپنی جان کا نذرانہ نہیں دے سکتے تو کم از کم اپنے مال اور فنون لطیفہ کے ذریعے مظلومین کا ساتھ دیں۔ ایک بہترین ماہر سماجیات نے لکھا ہے کہ استعمار نے ہمارے ادب اور فنونِ لطیفہ کو محدود اور مفلوج کر دیا ہے اور ہماری توجہ ایسے پست موضوعات کی طرف مبذول کر دی ہے کہ ہم سوچ ہی نہ سکیں کہ ہمارا استحصال ہو رہا ہے، جبکہ ایک ادیب پر تو پورے معاشرے کی ذمہ داری ہوتی ہے اور وہ معاشرے کا عکاس ہوتا ہے۔ پس اپنے قلم سے جہاد کریں۔۔ اپنی زبان سے جہاد کریں۔۔ جو بھی صلاحیت خدا نے آپ کو دی ہے، اس کو بروئے کار لاتے ہوئے مظلومین کی آواز بنیں۔۔۔ اور پُرامید رہیں، کیونکہ یہ خدا کا وعدہ ہے کہ اس کرۂ ارض پر مستضعفین کی ہی حکومت ہوگی اور فتح مبین آکر رہے گی۔۔۔بشکریہ اسلام ٹائمز

 

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …