پیر , 11 دسمبر 2023

صدر پوٹن کی دھمکی

(لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان)

­­­­­­­­­­­ رائٹر نیوز ایجنسی کی تازہ خبر یہ ہے کہ روس کے صدر مسٹر پوٹن نے اسرائیل کو دھمکی دی ہے کہ اگر غزہ پر اس کے حملے جاری رہے تو یہ تنازعہ مشرقِ وسطیٰ کی سرحدوں سے ورے پھیل جائے گا!…… مسٹر پوٹن صاحب:

لیکن جس دھمکی پر عملدرآمد ممکن نہ ہو وہ دھمکی دینے والے کی کمزوری اور اس کے کھوکھلے پن کا سراغ دیتی ہے۔ صدر پوٹن یہ دھمکی کئی بار پہلے بھی دے چکے ہیں۔ نئی ہزاری کے پہلے عشرے میں جب امریکہ نے عراق پر حملہ کر دیا تھا اور پھر لیبیا پر بھی فوج کشی کر دی تھی تو عالمی قوتوں کی وہ تعداد جو خاصی بڑی تھی، وہ عراق کے صدام حسین اور لیبیا کے کرنل قذافی کی طرفداری میں لمبے لمبے بیان دیا کرتی تھی…… ان میں مسٹر پوٹن بھی شامل تھے لیکن صحرا میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟

روس، پہلے ہی یوکرائن کی جنگ میں پھنسا ہوا ہے۔ اس کے سینکڑوں ٹینک اور ہزاروں فوجی اس جنگ میں کام آ چکے ہیں۔ روس کے مقابلے میں امریکہ اور یورپ کا جانی اور اسلحی نقصان نہ ہونے کے برابر ہے۔ امریکہ یوکرین کو مالی امداد دے رہا ہے، اسلحہ بارود کے ڈھیر یوکرین بھیج رہا ہے، یورپ کے وہ ممالک کہ جو NATO میں شامل ہیں، وہ بھی اپنے بھاری ہتھیار، کیف (Keiv) بھیج رہے ہیں۔ لیکن ان کا کوئی جانی نقصان نہیں ہو رہا۔

کون نہیں جانتا کہ اسلحہ کے نقصانات پورے کئے جا سکتے ہیں لیکن جانی نقصان کا پورا کیا جانا ممکن نہیں ہوتا؟ دوسرے لفظوں میں امریکہ اور ناٹو ممالک کے اپنے (اور امریکی) اسلحہ جات جو یوکرین کی جنگ میں استعمال ہو رہے ہیں وہ امریکی اور یورپی جانوں کے وہ صدقات ہیں جو یوکرین کی افواج کے جانی نقصانات کا ”اجر“ کہلائے جا سکتے ہیں۔

یوکرین اور روس کی جنگ کے بعد غزہ اور اسرائیل کی جنگ عالمی قوتوں کے عسکری توازن کا گویا ایک لٹمس (Litmus) بھی ہے۔ ذرا اس حقیقت پر بھی غور کیجئے کہ امریکہ نے تو 7اکتوبر کے بعد اگلے چھ دنوں میں اپنے دو طیارہ بردار بحیرۂ روم میں بھیج دیئے تھے۔ یہ طیارہ بردار، غزہ کے حماس کے خلاف نہیں بھیجے گئے تھے بلکہ یہ اس جنگ کا توڑ تھے جس کی دھمکی صدر پوٹن نے اب دی ہے۔ لیکن اس دھمکی کا عملی مظاہرہ کہاں ہے؟ کیا کوئی روسی طیارہ بردار بھی بحیرۂ روم کے پانیوں میں پہنچا ہے؟ کیا چین نے روس کے اس اقدام کی حمائت میں کوئی ایک لفظ بھی کہا ہے؟ کیا ایران کے پاس کوئی ایسا میزائل بھی ہے جو امریکی طیارہ برداروں کو نشانہ بنا سکتا ہے؟…… جن لوگوں نے ہاتھی پالے ہوتے ہیں، انہوں نے اپنی حویلیوں کے گیٹ بھی بلند اور وسیع و عریض رکھے ہوتے ہیں۔ ایران اور اسرائیل کی دشمنی ویسی ہی ہے جیسی پاکستان اور بھارت کی ہے۔ اگر بقولِ پوٹن اس جنگ کا دائرہ مشرق وسطیٰ سے باہر تک پھیل جاتا ہے تو ذرا سوچئے اس کا جغرافیائی تناظر اور عسکری پیش منظر کیا ہوگا؟ اسرائیل کے چاروں طرف مسلمان اور عرب ممالک پھیلے ہوئے ہیں۔ لیکن ان درجن بھر مسلم ممالک کی عسکری قوت کیا ہے؟ اگر مسٹر بائیڈن 14اکتوبر کو تل ابیب پہنچ کر نیتن یاہو کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کر سکتا ہے تو کیا کسی عرب/ اسلامی ملک کے سربراہ نے بھی رفح یا غزہ یا خان یونس کے شہروں میں جا کر حماس کے لیڈروں سے یک جہتی کا اظہار کیا ہے؟ کیا او آئی سی نے کوئی کانفرنس قاہرہ میں منعقد کرکے غزہ کے محاصرے میں فلسطینیوں کو ڈھارس بندھائی ہے؟ غزہ کی پٹی کا کل رقبہ صرف 365مربع کلومیٹر ہے لیکن آفرین ہے حماس پر کہ اس نے اس محدود سے علاقے میں بیٹھ کر 7اکتوبر کے اس حملے کی پلاننگ کی جو اسرائیل پر کیا گیا،جس میں 1400اسرائیلی مارے گئے اور درجنوں کو یرغمال بنا لیا گیا۔

اس تنازعے کو کسی بھی حوالے سے ”جنگ“ کا نام نہیں دیاجا سکتا۔ کہا ں غزہ کی پٹی اور کہاں اسرائیل؟ لیکن یہی وہ سوال ہے جو دنیا بھر کے اسرائیلی حمائتیوں کا ڈراؤنا خواب بنا ہوا ہے۔آج اسرائیل نے غزہ کامحاصرہ کر رکھا ہے۔ وہاں ہزاروں مسلمان مرد و زن ہلاک / شہید ہو چکے ہیں۔ بیشتر فلک بوس عمارتیں پیوندِ زمین ہو چکی ہیں۔ پانی، ادویات اور خوراک کی کمک بند ہے۔ لیکن غزہ کے ”فلسطینی عزم“ میں اب تک کسی دراڑ کا نام و نشان نہیں ملتا!

ماسکو میں بیٹھ کر پوٹن نے جو دھمکی یا چتاؤنی دی ہے اس کا عملی آغاز کب ہوگا؟کیا اسرائیل کے آئرن ڈوم طیارہ شکن نظام کو حماس کے راکٹوں نے بے اثر کرکے نہیں رکھ دیا تھا؟ اگر حماس کے عسکری لیڈروں کو ایران اور حزب اللہ کے عسکری لیڈروں نے ٹریننگ دے کر 7اکتوبر کو ممکن بنایا تو صرف اور صرف ان ہی سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ آئندہ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ پوٹن کو اپنے اس دھمکی آمیز بیان کی مزید وضاحت کی ضرورت ہے۔ یہ درست ہے کہ کوئی بھی جنگی فریق اپنے حملے یا دفاع کا پلان وقت سے پہلے طشت ازبام نہیں کیا کرتا لیکن صدر پوٹن کو اس دھمکی کے چند ایک بڑے بڑے خدوخال کا مظاہرہ اسی طرح کرنا چاہیے جس طرح صدر بائیڈن نے دوطیارہ برداروں اور بعض دوسرے طیارہ شکن نظاموں کو اسرائیل بھیج کر کیا ہے:

گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں

پاکستان اور پاکستان جیسے درجنوں ممالک نے فلسطینی عوام کی زبوں روزی پر ان کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کیا ہے۔ لیکن یہ وقت صرف خالی خولی اور لفظی حمائت کا نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اسرائیل کی درازدستیوں کی عملی/ عسکری پیش بندی کرنا ہوگی۔

نیتن یاہو نے برملا کہہ دیا ہے کہ: ”ہم حماس کو تہس نہس کرکے دم لیں گے…… ہم اس فتنے کوجڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے…… ہم غزہ کی پٹی پر زمینی حملہ کرکے اس کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیں گے…… اگر حماس کے کسی حمائتی نے ہمیں روکنے کی کوشش کی تواس کا انجام حماس جیسا ہوگا…… وغیرہ وغیرہ“۔

کیا ایران، شام یا کسی عرب ملک کے پاس ایسے میزائل نہیں کہ ان سے اسرائیلی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا جا سکے۔ ترکی کی عسکری قوت کا بڑا شہرہ ہے۔ بالخصوص اس کے ڈرون آج 29ممالک کو برآمد اور فروخت کئے جا رہے ہیں۔ ان ڈرونوں کی تباہ کاری کی تفصیل ایک بسیط مقالے کی طالب ہے۔ کیا کوئی مسلمان ملک، صدر پوٹن کی اس دھمکی کی آواز میں اپنی آواز شامل کر سکتا ہے؟ مجھے اندازہ ہے کہ مستقبلِ قریب میں اس ”جنگ“ کا دائرہ مشرق وسطیٰ سے ورے کبھی نہیں پھیلے گا۔ اسرائیل اور اس کا اَن داتا، کبھی پوٹن کی دھمکی کے امکانات پر کوئی تبصرہ نہیں کرے گا۔ وہ لوگ ’عمل‘ کے قائل ہیں۔ ’دھمکیوں‘کے نہیں۔ دھمکی ایک مجہول بیان ہے جو کمزوروں اور ناتوانوں کا طرۂ امتیاز گردانا جاتا ہے۔ جنہوں نے کچھ کرنا ہوتا ہے وہ دھمکی نہیں دیتے، خاموش رہتے ہیں اور قول کی بجائے عمل پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمان تو صدہا برس سے عسکری لحاظ سے خواجہ سرا (Eunuch) بن چکے ہیں!بشکریہ ڈیلی پاکستان

 

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …