اتوار , 10 دسمبر 2023

اسرائیلی سفاکیت، ظلم پھر ظلم ہے

(تحریر: ارشاد حسین ناصر)

دنیا کے نقشے پہ ناجائز وجود اسرائیل ظلم، بربریت اور سفاکیت کی تمام حدود کو پار کرچکا ہے۔ اس سفاکیت نے دنیا کے انصاف پسند لوگوں، بلکہ ہر درد دل رکھنے والے آزاد فکر انسان کو غم ناک کیا ہوا ہے۔ سفاکیت اور درندگی کے ایسے مناظر اس سے قبل شاید ہی کسی نے دیکھے ہوں۔ یہ سفاکیت، یہ درندگی، یہ ظلم اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اس کا راستہ روکنا دنیا کی پہلی ترجیح ہونا چاہیئے تھا، مگر پوری دنیا مین کوئی بھی اس بدمعاشی، اس تجاوز، اس ظلم کا راستہ روکنے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتا، بلکہ نام نہاد سپر طاقتوں میں سے اس ظلم کا برابر کا حصہ دار امریکہ اسے بڑھاوا دے رہا ہے اور اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قراداد کو ویٹو کرتے ہوئے اسرائیل کیلئے جدید ہتھیاروں اور اسلحہ کیساتھ ساتھ اپنی افواج بھی بھیج رہا ہے۔ ایک طرف اس کے بحری بیڑے عرب ممالک میں اس کے بنائے گئے بیسز سے سمندری حدود میں پہنچ رہے ہیں تو دوسری جانب انہیں ہائی الرٹ پوزیشن میں لایا گیا ہے۔

ایسے میں مظلوم، ستم رسیدہ اہل غزہ، اہل فلسطین کی مدد و نصرت کرنے کیلئے نام نہاد امت مسلمہ، عرب لیگ، او آئی سی جیسی بے کار تنظیمیں کوئی جرات مندانہ اقدام کرنے کی بجائے حماس کی کارروائی کی مذمت میں لگے ہوئے ہیں۔ اور تو اور بعض ممالک جن میں امارات کا نام سامنے آرہا ہے، ان کی افواج بالخصوص ہوائی افواج بے گناہ فلسطینیوں پر کارپٹ بمبارمنٹ میں ملوث بتائی جا رہی ہیں، جو بے حد افسوسناک ہیں۔ اسی طرح کعبہ پر قابض آل سعود خاندان بھی اتنی جرات نہیں رکھتا کہ آگے بڑھ کر فلسطینیوں کے حق زندگی کی بات کرے کہ اسرائیل نے اہل غزہ سے جینے کا حق چھین لیا ہے۔

غزہ پر پانی کی بندش ہے، بجلی کی بندش ہے، پٹرول کی بندش ہے، کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت ہے۔ ایک طرف معصوم بچوں کے دودھ کی کمی ہے تو دوسری طرف دودھ پیتے بچوں کو ان کی مائوں کی گود میں بم مار کر، کارپٹ بمباری کرکے موت کی وادی میں دھکیلا جا رہا ہے۔ سات اکتوبر سے اب تک سینکڑوں دودھ پیتے کم سن بچے شہادت سے ہمکنار ہوچکے ہیں۔ دنیا کے انصاف پسند، انسانی حقوق کی بات کرنے والے، بنیادی انسانی حقوق کے نعرے لگانے والے اور جنگوں میں جنگی جرائم کی روک تھام کرنے والے نام نہاد عالمی اداروں کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ دو حرفی مذمت ہی کر دیں اور اسرائیل جیسے ظالم کے خلاف زبان کھول سکیں۔دنیا کو یہ پہلی بار دیکھنے کو مل رہا ہے کہ اسرائیل بڑی ڈھٹائی سے شہری آبادیوں کو نشانہ بنا کر پھر دھمکی دیتا ہے کہ اسپتال خالی کر دیں، ہم بم ماریں گے اور پھر بلا جھجھک اسپتالوں پہ بارود کی بارش کر دیتا ہے، جس کا الزام حماس پر لگانے کی بھونڈی حرکت کی جاتی ہے۔

اسی طرح غزہ میں اسکولز کو بتا کر نشانہ بنایا جاتا ہے، شاپنگ مالز کو بمبارمنٹ کے ساتھ مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ رہائشی کالونیز کو بھی وارننگ دے کر نشانہ بنایا جاتا ہے، جس میں ایک ہی وقت میں سینکڑوں لوگ موت کی وادی میں دھکیل دیے جاتے ہیں۔ ان سارے جرائم میں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی، اسرائیل کیساتھ برابر کے شریک دکھائی دیتے ہیں۔ ان ممالک کے سربراہان اسرائیل جا کر ان کیساتھ اظہار یکجہتی کا اعلان کرتے دیکھے جا سکتے ہیں، جبکہ مظلوم فلسطینیوں کی مدد، نصرت، ان کیساتھ ہمدردی، ان کا غم محسوس کرنے میں نام نہاد مسلم حکمران لیت و لعل سے کام لیتے ہوئے امریکہ و اسرائیل سے وفاداری کا ثبوت دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

عجیب بات ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کے حق میں سب سے بڑے احتجاجی اجتماع اور ریلیاں اہل مغرب نے نکالی ہیں۔ بذات خود امریکہ، فرانس، جرمن، سویڈن، انگلینڈ جیسے ممالک میں عوام و خواص نے اس ظلم پر میدان میں آکر اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا ہے اور دنیا کو بتایا ہے کہ اسرائیل ایک غاصب اور ظالم ریاست ہے، جو بچوں کی قاتل ہے۔ جو سفاکیت کی انتہاء کو چھو رہی ہے، جس کیلئے اسپتال، تعلیمی ادارے، رہائشی بستیاں فرق نہیں رکھتیں۔ اس کیلئے مسلح گروہوں اور عوام میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان سب جنگی جرائم پر اسے کسی نے اب تک نہیں پوچھا، نہ ہی کسی نے بعد میں پوچھنا ہے۔ یہی کام اگر روس یوکرین میں کرتا تو جنگی مجرم ہوتا، اس پہ عالمی عدالت میں جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جاتا۔

یہی کام اگر کوئی مسلم ریاست کرتی تو اس کا اقتدار اعلیٰ تبدیل کرنے کیلئے ساری دنیا کا اتحاد بنا لیا جاتا، جس میں نام نہاد مسلم ممالک بھی شامل ہوتے۔ ماضی قریب میں ایسے ہی الزامات لگا کر شام میں کیا کچھ نہیں کیا گیا۔ مسلم حکمرانوں کی منافقت، بزدلی کیساتھ ساتھ انصاف پسند دنیا اب کھل کر تسلیم کر رہی ہے کہ فلسطینیوں کی مدد اور جراءت مندانہ اقدامات فقط اسلامی جمہوری ایران کی طرف سے دیکھنے کو ملے ہیں۔ اس کو عرب عوام سوشل میڈیا پر اپنے جذبات و احساسات شیئر کرکے کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس وقت سب سے بھیانک کردار مسلم مالک اور ان کے سربراہان کا ہے، جنہوں نے اپنی کرسی اقتدار کی خاطر ظلم کے ساتھ گٹھ جوڑ کر رکھا ہے۔ اسرائیل جیسے سفاک درندے کے سامنے جھکے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور حماس کی مذمت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

اندازہ لگائیں کہ یہی نام نہاد عرب و ترک حکمران تھے، جو شام کے خلاف میدان میں اترے ہوئے تھے۔ شام کی اینٹ سے اینٹ بجانے کیلئے دنیا بھر سے جنگجو بھرتی کرکے ترکی کے ذریعے شام میں بھیج رہے تھے۔ آج ان کو اجڑا ہوا غزہ دکھائی نہیں دے رہا۔ آج غزہ کے ستم رسیدہ، اجڑے شہر جنہیں کھنڈرات میں تبدیل کر دیا گیا ہے، کیلئے درد محسوس نہیں ہو رہا۔ افغانستان کی نام نہاد حکومت بھی شام تک اپنے کرائے کے جنگجو بھیج رہی تھی، اب ایک بیان دینے سے بھی قاصر دکھائی دیتی ہے کہ کہیں اس کو لانے والا امریکہ ناراض نہ ہو جائے۔ یہ بات بہت حوصلہ افزا رہی ہے اور اب بھی ہے کہ اہل فلسطین کی مزاحمت و مقاومت ایسے فرقہ باز، متعصب گروہوں جن کی گھٹی میں تعصب گھوٹ گھوٹ کر بھرا گیا ہے، سے دور ہیں۔ اسی وجہ سے فلسطینیوں کی جدوجہد کامیابی کے قریب ہے اور اس میں گذشتہ پچھتر برس میں ہر دن کیساتھ بہتری آئی ہے۔

یہ لوگ پتھروں سے شروع ہوئے تھے اور اب میزائل و ڈرون ٹیکنولوجی کے ذریعے دشمن کے دانت کھٹے کرنے میں مصروف ہیں، دشمن اتنا بوکھلایا ہوا ہے کہ اسے یہ مجاہد اور ان کی کمین گاہیں نہیں ملتیں تو اسپتالوں، رہائشی بستیوں، اسکولز، شاپنگ مالز کو نشانہ بناتا ہے۔ بے گناہوں، نہتے عوام کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگتا ہے، مہذب دنیا مجرمانہ طور پر اس کو چھوٹ دیتے ہیں اور انسانیت شرما جاتی ہے۔ تاریخ کے تاریک ترین ابواب اس دور میں لکھے جا رہے ہیں، جس میں ہر ایک کا کردار آئندہ نسلوں کے سامنے اس کی آئندہ نسلوں کو شرمندہ کرے گا۔ اسرائیل ایک ناجائز، سفاک وجود کا نام ہے، اس کی بنیاد ظلم پر رکھی گئی تھی، جسے اس کے ظلم سمیت ختم ہونا ہے۔ اس کے خاتمہ کا سفر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، آج کے اس کے اقدامات اسے دنیا کے نقشے سے صاف کرنے کا پیش خیمہ ضرور بنتے دکھائی دیتے ہیں۔

ہم تو ویسے ہی اپنے رہبر کی پیشین گوئی کو عملی ہوتا دیکھنے کے خواہش مند اور منتظر ہیں۔۔ ساحر لدھیانوی نے کیا خوب کہا تھا کہ۔۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا

شہادت کے طلبگاروں، موت کو گلے کا ہار بنانے والوں، استقامت، مزاحمت، مقاومت کا پرچم بلند کرنے والوں کو ایسے ظلم، ایسی سفاکیت، ایسی درندگی سے اپنے ہدف اور مقصد سے دور نہیں ہٹایا جا سکتا۔ ہمارے دل مظلوموں کیساتھ دھڑکتے ہیں کہ ہم کربلائی ہیں، ظالم سے ٹکرانا ہمارا ہی ورثہ ہے، جس کیلئے ہم ہر رکاوٹ اور دیوار کو پچھاڑ سکتے ہیں۔ غزہ کا راستہ ہمیں معلوم ہے، القدس کا راستہ ہمیں معلوم ہے۔ ہم اپنے بھائیوں کی نصرت کیلئے پیچھے نہیں رہیں گے۔ القدس کی پکار پر، غزہ کی پکار پر ہم لبیک کہتے ہوئے پہنچیں گے، کوئی ہمیں روک نہیں سکتا۔بشکریہ اسلام ٹائمز

 

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …