اتوار , 10 دسمبر 2023

فتح فلسطینی قوم کا مقدر

(تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی)

آج غزہ میں جو تاریخ رقم ہو رہی ہے، یہ ہمیشہ کتابوں اور انسانی اذہان میں رہے گی۔ آج اگر ہم ماضی میں ہونے والے انسانی جرائم اور ان کے ذمہ داروں کا ذکر کرکے ان کو برا بھلا کہتے ہیں تو ہمیں اس بات کو ہرگز نہیں بھولنا چاہیئے کہ آئندہ کی نسلیں غزہ کے حالیہ جرائم کا بھی جب ذکر کریں گی تو ان جرائم کے مرتکب افراد، اداروں، حکومتوں اور حکمرانوں کو ہرگز معاف نہیں کریں گی۔ آج کا میڈیا ممکن ہے کہ کچھ جرائم کو چھپانے میں کامیاب ہو جائے، لیکن تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی اور ہر جرم کو آشکار کر دیتی ہے۔ آج غزہ کے جرائم پر مغرب کی مجرمانہ خاموشی اہل مغرب کی پیشانی پر ایسا کلنک کا ٹیکہ بن کر نمایاں ہوگی کہ کوئی اسے مٹا نہیں سکے گا۔

غزہ میں ایک ہسپتال کو نشانہ بنانے کی صیہونیوں کی جارحیت اور سینکڑوں فلسطینی خواتین، بچوں، مردوں اور نوجوانوں کا بہیمانہ قتل عام صرف صیہونیوں کے لئے ہی نہیں بلکہ مغرب کے لئے بھی خفت اور بدنما داغ ہے۔ اس وحشیانہ اقدام سے صیہونی حکومت کی اصل اور نسل پرستانہ ماہیت عالمی رائے عامہ کے سامنے مزید آشکار ہوگئی ہے۔ غاصب اور ناجائز ریاست اسرائیل کے نسل پرست وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے غزہ کے المعمدانی ہسپتال پر بمباری سے ایک گھنٹہ پہلے سوشل پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ "یہ روشنی کے بچوں اور اندھیرے کے بچوں کے درمیان جنگ ہے، انسانیت اور جنگل کے قانون کے درمیان جنگ ہے۔” اس سے قبل اسرائیل کے وزیر جنگ نے کہا تھا کہ "ہم انسان نما جانوروں سے لڑ رہے ہیں!”

ان تمام نسل پرستانہ بیانات کے باوجود امریکہ اور یورپ غاصب صیہونی حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور فلسطینی خواتین اور بچوں کے قتل کو صیہونیوں کا دفاع قرار دے رہے ہیں۔ انہوں نے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کو بھی جرم قرار دیا اور مظلوم فلسطینی عوام کے لئے کسی بھی اجتماع اور حمایت پر قید کی سزا مقرر کر دی ہے۔ صیہونیوں کی اس بے پناہ حمایت کا مطلب دراصل محاصرہ شدہ غزہ کے لوگوں کو امریکی بموں کے ذریعے نشانہ بنانے میں صیہونیوں کے ساتھ کھڑے رہنا ہے۔ نیتن یاہو کی نسل پرست حکومت نے اسی حمایت کی وجہ سے المعمدانی ہسپتال میں سینکڑوں خواتین اور بچوں کو موت کی نیند سلا دیا۔ یہ جرم اتنا بڑا اور ہولناک ہے کہ اس سے متعلق ابتدائی خبریں اور تصاویر سامنے آتے ہی پوری دنیا میں صیہونیوں کے خلاف غم و غصے اور نفرت کی لہر دوڑ گئی۔

مختلف ممالک میں لوگوں نے غاصب اسرائیل، امریکہ اور یورپی حکومتوں کے سفارت خانوں کے سامنے زبردست احتجاجی مظاہرے کئے۔ اردن کے دارالحکومت امان میں لوگوں نے صیہونی حکومت کے سفارت خانے کو آگ لگا دی۔ انقرہ میں ترک عوام صہیونی سفارت خانے کی دیواروں پر چڑھ گئے اور غاصب اسرائیلی حکومت کے سفارت خانے پر کئی گھنٹے تک قبضہ جمائے رکھا۔ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے ادارے ہیومین رائٹس واچ نے بھی کہا کہ غزہ کے المعمدانی ہسپتال میں 500 سے زائد افراد کا قتل ایسا جرم ہے، جس کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔ غزہ کے المعمدانی ہسپتال پر بمباری اور درجنوں خواتین اور بچوں کے قتل کے چند گھنٹے کے بعد ہی امریکی صدر جو بائیڈن تل ابیب پہنچ گئے اور انہوں نے نیتن یاہو سے ملاقات کے دوران صریحاً اسرائیل کی حمایت کا اظہار کیا۔

گارڈین اخبار کے مطابق طوفان الاقصیٰ آپریشن کے آغاز کے بعد سے "بائیڈن شاید بل کلنٹن کے بعد سب سے زیادہ اسرائیل سے محبت رکھنے والے امریکی صدر ہیں، جنہوں نے نیتن یاہو کو ان کے اقدامات کے بارے میں اپنی رضامندی ظاہر کی اور ایسا کوئی اقدام نہیں کیا، جس سے عالمی رائے عامہ میں نیتن یاہو کے ساتھ ان کا معمولی سا بھی اختلاف ظاہر ہو۔” المعمدانی ہسپتال پر بمباری اور درجنوں خواتین اور بچوں کی شہادت کے دو روز بعد برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے بھی تل ابیب کا دورہ کیا اور اپنے ملک کی طرف سے اسرائیل کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ اس سے زیادہ برطانیہ سے توقع کی بھی نہیں جاسکتی ہے۔ فلسطین میں اسرائیل کی غاصب اور ناجائز ریاست کا بیج ہی برطانیہ نے بویا تھا اور اسرائیل برطانیہ کی ہی ناجائز اولاد ہے۔

اسرائیل اور اس کے یورپی اور امریکی حامیوں نے نہ صرف المعمدنی ہسپتال میں بڑے پیمانے پر قتل عام کی ذمہ داری قبول نہیں کی بلکہ نفسیاتی جنگ میں اس گھناؤنے جرم کو فلسطینی جہادی تنظیموں سے منسوب کرنے کی کوشش کی۔ غزہ کے آس پاس کے علاقوں پر حماس کی اچانک کارروائی کے بعد صیہونیوں نے تحریک حماس کے جاں بازوں کے ہاتھوں بچوں کے سر قلم کرنے کی جھوٹی خبریں اس حد تک پھیلائیں کہ جو بائیڈن نے بھی اس بڑے جھوٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے غزہ پر ہونے والے حملوں اور غیر فوجی فلسطینیوں کے قتل عام کو اسرائیل کا حق قرار دیا، لیکن بائیڈن کے تبصرے کے فوراً بعد وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے تسلیم کیا کہ بچوں کے سر قلم کرنے کی خبریں جھوٹی تھیں۔ ایک بار پھر، جو بائیڈن نے غزہ کے المعمدنی ہسپتال میں ہونے والے قتل عام کو اسلامی مزاحمتی گروپوں سے منسوب کیا۔

دریں اثناء، امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے لکھا کہ غزہ میں المعمدانی ہسپتال پر جس بم سے حملہ کیا گیا، وہ امریکی ایم کے 84 بم تھا۔ ایم کے 84 بم امریکہ کا بنایا ہوا ایک کثیر المقاصد بم ہے، جس کا وزن تقریباً ایک ٹن ہے اور اس میں بہت زیادہ تباہ کن طاقت ہوتی ہے۔ بی بی سی کے رپورٹر کا بھی کہنا ہے کہ دھماکے کی شدت کو دیکھتے ہوئے اسے اسرائیلی میزائل کے علاوہ کوئی اور چیز سمجھنا بہت مشکل ہے۔ غزہ کے ایک ہسپتال پر راکٹ حملے پر انسانی ہمدردی کا دعویٰ کرنے والی مغربی حکومتوں کے ردعمل نے ظاہر کیا کہ انسانی حقوق صرف ایک نعرہ ہے۔ اگر انسانی حقوق سچ ہوتے تو دنیا اب غزہ میں بیپٹسٹ ہسپتال پر حملے کے لیے اسرائیل کی فریاد پر کان نہیں دھرے گی، لیکن ایسا نہیں ہے، کیونکہ یہ بہت بڑا جھوٹ ہے۔

"فنانشل ٹائمز” اخبار نے لکھا ہے کہ متعدد گمنام مغربی حکام نے اعتراف کیا ہے کہ مغرب نے یوکرین اور مقبوضہ علاقوں میں جنگ کے حوالے سے انسانی حقوق کی حمایت کے اپنے دعووں میں تضاد اور دوہرا معیار دکھایا ہے۔ اس انگریزی اخبار نے کہا: "زیادہ تر ترقی پذیر ممالک روایتی طور پر فلسطین کے کاز کی حمایت اور انہیں حق خود ارادیت دینے اور صیہونی حکومت کے سب سے اہم حامی امریکہ کے عالمی تسلط کی مخالفت کرنے کا نظریہ رکھتے ہیں۔” فنانشل ٹائمز اخبار کی فلسطینی ریاست کے وجود کی حمایت میں ترقی کے حل میں ممالک کی حمایت کے بارے میں رائے آج دنیا کے حکمرانوں کا حصہ ہے۔ آج فلسطین کے مظلوموں کی حمایت ایک عالمی رجحان بن چکا ہے۔ اس تناظر میں، ہمیں صرف نسل پرست اسرائیلی حکومت کی حمایت میں مغربی حکومتوں کے نقطہ نظر پر توجہ نہیں دینی چاہیئے۔

ان کی حکومتوں کے برعکس مغربی رائے عامہ مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں صہیونی جرائم کے خلاف ہے۔ مظاہروں کی لہر اور سوشل نیٹ ورکس کے مواد پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ مغربی حکومتوں کے نقطہ نظر کے برعکس رائے عامہ مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں صہیونیوں کی نسل پرستانہ نوعیت سے آگاہ ہے۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ بیشتر مغربی حکومتوں بالخصوص جرمنی، فرانس اور بعض دیگر ممالک کی حکومتوں نے فلسطین کے مظلوم عوام سے اظہار ہمدردی کے لیے سزائیں نافذ کی ہیں۔ لیکن ان جرائم کی وجہ سے یورپی اور امریکی ممالک میں رائے عامہ کے غصے کا اظہار نہیں رکا اور لوگ سڑکوں پر آگئے۔ آج دنیا میں طاقت کے توازن میں جو بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے، وہ چوتھے صنعتی انقلاب کے دور میں معلومات اور مواصلات کی وسعت کے ساتھ رائے عامہ کی بیداری ہے۔

کوئی بھی ملک اب رائے عامہ پر توجہ دیئے بغیر اپنے اہداف و مقاصد کو حاصل نہیں کرسکتا۔ صہیونیوں نے ہمیشہ جرمنی کے ہاتھوں ہولوکاسٹ قتل عام کا بہانہ بنا کر فلسطین پر قبضے اور فلسطینیوں کو ان کے آباؤ اجداد کی سرزمین سے بے دخل کرنے کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی۔ یورپی حکومتوں نے بھی ہولوکاسٹ میں یہودیوں کے بڑے پیمانے پر قتل عام پر انگلی اٹھانے اور صیہونیوں کی مخالفت کو یہود دشمنی قرار دیا ہے اور صیہونیوں پر تنقید کرنے والوں اور صیہونیوں کے مخالفین کے لئے سزاؤں کا تعین کیا ہے۔ غزہ کے عوام کا قتل عام نہ صرف صہیونیوں بلکہ مغربی حکومتوں کے لئے بھی بدنامی اور خفت کا باعث بنا ہے۔ انسان دوستی کے دعویداروں نے مغرب میں انسان دوستی کا مظاہرہ کیا اور ثابت کیا کہ انسانی حقوق کے دفاع کی ان کے لیے حدود ہیں۔

غاصب اسرائیلی حکومت میں شامل صیہونیوں کے انسانی حقوق کے دفاع میں یورپی اور امریکی حکومتوں کی کچھ حدود ہیں، لہذا صیہونیوں کو کوئی بھی جرم کرنے کی اجازت ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انہیں امریکہ اور یورپی حکومتوں کی حمایت حاصل ہے۔ نیتن یاہو کی نسل پرست حکومت اگر غزہ کو پوری طرح سے تباہ بھی کر دے اور غزہ کے عوام کو مکمل طور پر وہاں سے نکال بھی دے، تب بھی وہ جنگ ہار چکی ہے۔ صیہونیوں کو تو 75 سال ہوگئے غزہ سے فلسطینیوں کے مکمل انخلا کا خواب دیکھتے دیکھتے، لیکن ان کے سارے خواب پورے نہیں ہوسکے۔ اب بے گھر فلسطینیوں کی دوسری اور تیسری نسل میں مزاحمت کا رجحان فلسطین کی پہلی نسلوں سے زیادہ مضبوط ہے۔

یہ نسل صہیونیوں سے نفرت اور بیزاری کے ماحول میں پیدا ہوئی اور پلی بڑھی ہے۔ وہ اپنے اہداف و مقاصد سے دستبردار نہیں ہوں گے اور جب تک ناجائز صہیونی حکومت موجود ہے، فلسطین کی آزادی کے نصب العین کو زندہ رکھیں گے۔ فلسطینیوں کے اجتماعی قتل عام سے صیہونیوں کے خلاف استقامتی محاذ کا عزم و ارادہ مزید قوی ہوگا۔ اسی تناظر میں رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ شکست خوردہ غاصب صیہونی حکومت، فلسطینی مجاہدیں کی جانب سے لگائی جانے والی کاری ضرب کا بدلہ غزہ کے عوام سے لے رہی ہے، لیکن اس بات میں ذرہ برابر شک نہیں کہ ساری دنیا کی شیطانی طاقتوں کی بھرپور حمایت اور صیہونیوں کے جرائم میں امریکیوں کی کھلی مشارکت کے باجود، اس ظلم اور ستم کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا اور فتح فلسطینی قوم کا مقدر ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …