اتوار , 10 دسمبر 2023

سعودی وژن2030ء، چین اور غزہ میں جنگ

(مصطفی کمال پاشا)

سعودیہ کی معیشت زیادہ تر تیل کی برآمد پر انحصار کرتی ہے سعودی خام قومی پیداوار42 فی صد اسی شعبے سے حاصل ہوتی ہے جبکہ58 فی صد قومی پیداوار دیگر عوامل پر منحصر ہے۔سعودی شہزادہ جو مملکت کے بادشاہ کے طور پر نامزد بھی ہو چکے ہیں،محمد بن سلمان مملکت کو ایک جدید ترین ریاست بنانے کے عظیم الشان نظریے اور منصوبے ویژن 2030ء پر چل رہے ہیں یہ منصوبہ مملکت کو مکمل طور پر ایک جدید ترقی کرتی ہوئی ریاست میں بدلنے کے لئے ترتیب دیا گیا ہے۔سعودی عرب کو سرمایہ کاری کا مرکز اور سرمایہ کاروں کے لئے جنت بنانے کا عزم لئے ولی عہد محمد بن سلمان دن رات ایک کر چکے ہیں وہ سعودی خام پیداوار میں نان آئل عوامل کو58 فی صد سے بڑھا کر69فی صد تک لے جانا چاہتے ہیں۔وژن2030ء کے تحت کئی عظیم الشان منصوبے شروع کئے جا رہے ہیں سب سے بڑا منصوبہ نیوم سٹی کی تعمیر کا ہے۔نیوم مجموعہ ہے لاطینی لفظ NEOیعنی نیا اورM،عربی لفظ مستقبل سے اخذ کردہ ہے نیوم یعنی ”نیا مستقبل“ شہر26500 مربع کلو میٹر رقبے پر بحیرہ احمر کے شمال مغرب میں واقع ہو گا۔اس شہر کو بسانے کے لئے500ارب ڈالر سے زائد رقم کی سرمایہ کاری کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ یہ ایک میگا پراجیکٹ ہے جس پر اس قدر خطیر رقم خرچ کی جانی ہے دوسرا بڑا پراجیکٹ 334 مربع کلو میٹر رقبے پر مشتمل ایک تفریحی مقام/شہربسایا جائے گا جو ریاض سے40کلو میٹر جنوب مغرب میں واقع ہو گا۔ اس شہر کے قیام سے سعودی باشندے جو رقوم دبئی، ابو ظہبی، عمان اور گلف کے دیگر مقامات پر جا کر خرچ کرتے ہیں یہاں اس مقام پر خرچ کی جائیں گی۔ سعودی سیاحوں کے علاوہ علاقائی اور بین الاقوامی سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔وژن2030ء کے ذریعے نجی شعبے کے تعاون سے چار لاکھ50ہزار روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔وژن2030ء کو حقیقت کا رنگ دینے کے لئے نیشنل ٹرانسفارمیشن پروگرام ترتیب دیا جا چکا ہے اور اس کی قیادت سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کر رہے ہیں جو کونسل آف اکنامک اینڈ ڈویلپمنٹ افیئرز کے چیئرمین بھی ہیں۔سعودی عرب پہلے بھی ریاض میں کنگ عبداللہ فنانشل ڈسٹرکٹ(KAFD) اور کنگ عبداللہ اکنامک سٹی(KAEC) جیسے عظیم الشان منصوبوں کی تکمیل کے ذریعے اپنی معیشت میں تنوع پیدا کرنے کی کاوشیں کر چکا ہے یہ عظیم الشان پراجیکٹس وژن2030ء کے لئے رہنما کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

سعودی عرب ثقافتی اور تہذیبی طور پر بھی تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے روایتی طرزِ زندگی میں تبدیلی لائی جا رہی ہے عورتوں کو آزادی مل رہی ہے وہ امور دیگر میں بھی شریک ہو رہی ہیں، گاڑیاں چلا رہی ہیں،سینما ہاؤسز کھل رہے ہیں،معاشرتی گھٹن میں کمی آ رہی ہے۔

سیاسی طور پر بھی تبدیلی نظر آ رہی ہے امریکہ، برطانیہ کے علاوہ چین اور روس سے بھی تعلقات بڑھائے جا رہے ہیں خارجہ پالیسی میں تنوع پیدا کیا جا رہا ہے۔ ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہو چکے ہیں یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔سعودی عرب معاشی اور ثقافتی تبدیلی اور ترقی کے عمل سے گزر رہا ہے،اسی پالیسی کے تحت اسرائیل کے ساتھ بھی تعلقات معمول پر لانے کی باتیں سننے میں آ رہی تھیں۔اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں بھی سنا جا رہا تھا۔ پس پردہ شاید سلسلہ جنبانی بھی جاری تھا۔

وژن2030ء کے نفاذ کے حوالے سے بڑے بڑے ٹھیکے یہودی اسرائیلی فرموں کو دیئے جا رہے ہیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے اور یہودیوں کے ساتھ دشمنی ختم یا کمی کرنے کی سعودی پالیسی وژن 2030ء کے اہداف کے حصول کی راہیں کر سکتی ہیں۔

ٰ6دسمبر2022ء چینی صدر کا ریاض کے یماما پیلس میں فقید المثال استقبال کیا گیا چینی صدر نے محمد بن سلمان کو بتایا کہ وژن2030ء ایک اعلیٰ منصوبہ ہے لیکن اسے جاری طریقے سے مکمل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ چین کے پاس ایسی صلاحیت ہے جو میگا منصوبوں کو بروقت مکمل کرنے میں یقینی ہوئی ہے۔ اسرائیلی و یہودی فرمیں میگا پراجیکٹس بروقت مکمل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ سعودی عرب کو چاہئے کہ وہ اس حوالے سے چین کو موقع دے۔کہا جاتا ہے کہ یہاں اس ملاقات میں معاملات طے پا گئے تھے۔

اب ذرا سات اکتوبر2023ء کو حماس کے اسرائیل پر حملوں کا جائزہ لیں۔حماس لینڈ لاک غزہ کی پٹی میں محصور زندگی گزار رہا ہے تین اطراف اسرائیل اور چوتھی طرف سمندر ہے جس پر بھی اسرائیل کی نگرانی ہے۔غزہ کی پٹی60کلو میٹر لمبی ہے جسے مکمل طور پر خاردار دیوار کے ذریعے اسرائیل سے الگ کر دیا گیا ہے اس پر ہر جگہ کیمرے نصب ہیں جن کے منہ فلسطینی آبادی کی طرف ہیں تاکہ ان کی ہر حرکت اور نقل و حمل صہیونی ریاست کی نظروں میں رہے پھر ایک سڑک ہے جس پر ہر وقت اسرائیلی فوجی گشت کرتے رہتے ہیں اس کے بعد کنکریٹ کی دیوار ہے جس کے پیچھے اسرائیلی شہری آبادی ہے، زمینی طور پر یہ نظام اس قدر سخت اور مکمل ہے کہ فلسطینی اسے بائی پاس کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں پھر اسرائیلی فضاء میں آئرن ڈوم نامی دفاعی سسٹم آن ہے جس کی تین پرتیں ہیں کوئی جہاز، راکٹ، میزائل اس میں داخل نہیں ہو سکتا یہ نظام اسے ہوا میں ہی تباہ کر دیتا ہے۔

اسرائیل پوری دنیا میں سائبر سکیورٹی ٹیکنالوجی کے حوالے سے مشہور ہے اس ٹیکنالوجی میں اسے یدطولیٰ حاصل ہے ایسے میں حماس کا اسرائیل کے اندر گھس کر زمینی سکیورٹی نظام کو بائی پاس کر کے، کنکریٹ کی دیوار توڑ کر حملہ آور ہونا،حماس فدائین کا روایتی ہوائی گاڑی کے ذریعے آئرن ڈوم کو کراس کرنا اور حملہ کرنا حیران کن بات ہے۔ اس پوری کارروائی میں انسانی جرأت و ہمت کے علاوہ مہارت، تکنیک اور اعلیٰ آلات حرب و ضرب کی دستیابی انتہائی اہم ہیں پھر سب سے اہم بات اسرائیلی ایجنسیاں جو دنیا بھر میں اپنی مہارت کے باعث مشہور ہیں اس ساری تیاری اور حملے سے کیسے بے خبر رہیں؟ حماس کے مجاہدین نے نہ صرف اسرائیل کے اندر گھس کر 22مقامات پر حملہ کیا بلکہ 200سے زائد لوگوں کو یرغمال بھی بنا ڈالا۔حیران کن ہی نہیں پریشان کن بھی ہے۔ اسرائیل کا ری ایکشن بھی سمجھ میں آتا ہے،لیکن یہ سب کچھ کیسے ہو گیا۔ایک چھوٹی سی تنظیم حماس نے جسے فلسطینیوں کی بھی پوری حمایت حاصل نہیں ہے اس قدر وسیع آپریشن کر ڈالا۔علاقے کی سپرپاور اسرائیل کو صرف للکارا ہی نہیں،بلکہ اس کے منہ پر طمانچہ بھی مار ڈالا۔اب سعودی عرب اسرائیل تعلقات میں گرمی دیکھنے کو نہیں ملے گی۔چین وژن2030ء میں ایک مرکزی پلیئر بن جائے گا۔بشکریہ ڈیلی پاکستان

 

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …