پیر , 11 دسمبر 2023

جنگوں کی اصل وجہ

(تحریر: اتوسا دیناریان)

یوکرین میں جنگ کے جاری رہنے اور غزہ پر اسرائیل کے حملوں میں شدت آنے سے امریکہ میں ہتھیار بنانے والی فیکٹریوں کی فروخت اور اس کے نتیجے میں ہونے والے منافع میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ جنرل ڈائنامکس کمپنی کے مالیاتی امور کے افسر "جیسن ایکن” نے اس حوالے سے کہا ہے کہ "ہم ماہانہ 14000 توپوں کے گولوں سے 20,000 گولوں تک پہنچ چکے ہیں اور ہم اس تعداد کو بڑھا کر ہر ماہ 85,000 یا اس سے بھی 100,000 گولوں تک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔” لاک ہیڈ مارٹن اور جنرل ڈائنامکس سمیت امریکی دفاعی ٹھیکیداروں نے اندازہ لگایا ہے کہ آنے والے مہینوں میں لاکھوں توپوں کے گولوں، سینکڑوں پیٹریاٹ میزائلوں کے آرڈرز اور بکتر بند گاڑیوں کی درخواستوں میں اضافہ سے ان کی آمدنی میں نمایاں اضافہ ہوگا۔

اسلحے کی فروخت اور اس کی برآمد امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں اور کارخانوں کے لیے ہمیشہ سے سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار رہا ہے، لیکن حالیہ مہینوں میں یوکرین میں جنگ کے جاری رہنے اور اس ملک میں تنازعات میں اضافے کی وجہ سے ہتھیاروں کی پیداوار اور برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ میں ہر قسم کے بھاری ہتھیاروں اور گولہ بارود کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے اور ان کارخانوں نے یوکرین کی حمایت میں امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت کی پالیسیوں کے مطابق اپنی فوجی پیداوار میں اضافہ کر دیا ہے۔

امریکی ہتھیاروں کی پیداوار اور برآمد کے حوالے سے اعداد و شمار
اس سلسلے میں جنرل ڈائنامکس کے شعبہ "کمبیٹ سسٹمز” جو کہ یوکرین کو درکار ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں تیار کرتا ہے، کی آمدنی میں گذشتہ سال کے مقابلے میں 25 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ آر ٹی ایکس ہتھیاروں کی کمپنی نے بھی اعلان کیا ہے کہ اسے فروری 2022ء سے اب تک تین بلین ڈالر کے ہتھیاروں کے آرڈر موصول ہوچکے ہیں اور اسے یوکرین اور امریکی گوداموں کو سپلائی کرنے کے لیے مزید آرڈر ملنے کی توقع ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگ امریکی حکمرانوں کے لیے ایک سنہری موقع بن چکی ہے۔ امریکہ نہ صرف یوکرین جیسے متحارب ممالک کو ہتھیار فروخت کرتا ہے بلکہ بہت سے امریکی ہتھیار نیٹو کے رکن ممالک کو بھی فوجی امداد کی صورت میں بھیجے جاتے ہیں۔

شائع شدہ رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ واشنگٹن نے 2022ء کے آخر تک تقریباً 28 بلین ڈالر مالیت کے 24 سنگین ہتھیاروں کی فروخت کی منظوری دی ہے۔امریکی کمپنی "رائٹن ٹیکنالوجیز” کے صدر "گریگ ہیز” اس تناظر میں کہتے ہیں: "میں یوکرین میں جنگ کی صورت میں اپنی کمپنی کی فعال موجودگی اور اس ملک کو ہتھیاروں کی فروخت پر معذرت خواہ نہیں ہوں۔ موجودہ حالات میں جو بھی اسلحہ یوکرین کو بھیجا جاتا ہے، وہ ہمارے اسلحہ خانوں اور گوداموں سے برآمد کیا جاتا ہے، جو میرے لئے ایک انتہائی خوش آئند خبر ہے، یقیناً مستقبل میں ہمیں اپنے ہتھیاروں کے گوداموں کو دوبارہ ہتھیاروں سے بھرنے کے لیے بہت زیادہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ ہم مستقبل میں زیادہ منافع کمانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔”

ادھر فلسطینی قوم کے خلاف صیہونی جنگ میں شدت آنے کے ساتھ ہی مقبوضہ فلسطین میں ہر قسم کے امریکی ہتھیاروں کی ترسیل میں اضافہ ہوا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ امریکی اسلحہ ساز کارخانوں کے منافع میں مزید اضافہ ہوگا۔ نیویارک ٹائمز اخبار نے غزہ جنگ کے بہانے مقبوضہ علاقوں میں نئے امریکی ہتھیاروں کی آمد کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ غزہ جنگ نے ہتھیاروں کی فروخت میں تیزی کے لیے امریکی سپلائرز میں تازہ تحرک پیدا کرد یا ہے، وہ اس جنگ کو اسلحوں کی زیادہ سے زیادہ فروخت کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔

امریکہ دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا سپلائی کرنیوالا ملک ہے
رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار فراہم کرنے والا ملک ہے۔ دنیا بھر میں جو جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کا آرڈر دیا جاتا ہے، ان میں سے 60 فیصد امریکہ تیار کرتا ہے۔ صرف 2022ء میں، 13 ممالک نے امریکی فیکٹریوں سے کل 367 جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کا آرڈر دیا ہے۔ امریکہ کی جنگی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مستقبل میں امریکی حکومت کی جانب سے دنیا کے کونے کونے میں جنگیں اور سیاسی تنازعات جاری رکھنے کی کوششوں کی وجہ سے امریکی ہتھیاروں کی فروخت و درآمد کے اعداد و شمار میں مزید اضافہ ہوگا۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …