جمعہ , 8 دسمبر 2023

غزہ اور نیو ورلڈ آرڈر کی تشکیل

(تحریر: علی رضا نقوی نیا)

اگرچہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم نے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی بھرپور شہ اور حمایت سے غزہ میں قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے لیکن وہ اس حقیقت سے غافل ہے کہ یہ مجرمانہ اقدامات عالمی سطح پر اس کے مزید گوشہ نشین ہونے میں تیزی کا باعث بنیں گے اور یوں صیہونی حکمران مقبوضہ فلسطین میں تعمیر کئے گئے سکیورٹی حصار میں زیادہ سے زیادہ محصور ہوتے چلے جائیں گے۔ کچھ دن پہلے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عالمی برادری کی اکثریت نے مظلوم فلسطینی عوام کی حمایت کا کھل کر اظہار کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کی بھرپور مدد اور حمایت بھی صیہونی بربریت کے خلاف عالمی سطح پر جنم لینے والی احتجاجی لہر کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

قابل غور بات یہ ہے کہ روس اور چین نے بھی حال ہی میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں امریکہ کی جانب سے پیش کردہ اس قرارداد کو ویٹو کر دیا ہے جس میں یکطرفہ طور پر غاصب صیہونی رژیم کے حق میں اور فلسطینیوں کے خلاف موقف اختیار کیا گیا تھا۔ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
1)۔ روس اور چین 1948ء کی مقبوضہ فلسطینی سرزمین کو اسرائیل کی ملکیت تصور کرتے ہیں۔ یعنی ان کی نظر میں طوفان الاقصی فوجی آپریشن کے تحت حماس کے حملوں کا نشانہ بننے والے بعض شہر جیسے سدیروت اسرائیل کا حصہ ہیں اور مقبوضہ نہیں ہیں۔ لہذا اس موقف کے پیش نظر روس اور چین سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ ان شہروں پر حماس کے حملوں کی مذمت کریں گے لیکن انہوں نے نہ صرف امریکہ کی قرارداد کو ویٹو کر دیا بلکہ اسرائیل کے خلاف شدید موقف بھی اختیار کیا۔

2)۔ سابق سوویت یونین ٹوٹ جانے کے بعد روس ہمیشہ سے اسرائیل کا حامی رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ مقبوضہ فلسطین میں بڑی تعداد میں روس نژاد یہودیوں کی موجودگی ہے جبکہ دوسری وجہ ماسکو میں صیہونی لابی کا اثرورسوخ ہے۔ خاص طور پر جب بنجمن نیتن یاہو وزیراعظم بنا تو اس نے روس سے تعلقات کو فروغ دینے کی بہت کوشش کی جس کا مقصد روس اور امریکہ سے تعلقات میں توازن برقرار کرنا تھا۔ لیکن یوکرین جنگ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے دور ہونے کا باعث بنی۔ جب اسرائیل نے یوکرین کی حمایت کا اعلان کیا تو روس اور اسرائیل کے تعلقات بھی کشیدہ ہو گئے۔ اس کے بعد ولادیمیر پیوٹن ماضی کی طرح اسرائیل کی حمایت نہیں کرتے۔

3)۔ روس اور چین کی جانب سے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں حماس مخالف قرارداد کو ویٹو کر دینا اور مغربی حکام کے بقول اسرائیلی عام شہریوں کی ہلاکت پر حماس کی مذمت نہ کرنا غیر متوقع امر تھا۔
4)۔ یوکرین جنگ مغربی ممالک کی پوری توجہ روس کے خلاف مرکوز ہا جانے کا باعث بنی جس کے نتیجے میں مغربی بلاک کی پوری طاقت یوکرینی صدر زیلنسکی اور اس کی فوج کے حق میں چلی گئی۔ لیکن اب جب مغربی ایشیا خطے میں امریکہ کے اہم اتحادی یعنی صیہونی رژیم کے خلاف ایک نیا محاذ کھل گیا ہے تو یقیناً یورپ اور امریکہ کی توجہ کا ایک حصہ اسرائیل پر مرکوز ہو جائے گا اور یوکرین جنگ میں روس پر دباو میں اچھی خاصی کمی واقع ہو گی۔
5)۔ سکیورٹی کونسل میں روس اور چین کے حالیہ موقف سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مشرقی اور مغربی بلاک میں فاصلہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ یوکرین جنگ سے پہلے سکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل اراکین میں عالمی امور کے بارے میں زیادہ اتفاق رائے پایا جاتا تھا۔

مثال کے طور پر روس اور چین نے انصاراللہ یمن کے خلاف قرارداد 2201 کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ اسی طرح 2006ء میں اسرائیل اور حزب اللہ لبنان کے درمیان 33 روزہ جنگ میں بھی روس اور چین نے حزب اللہ مخالف قرارداد 1559 کی حمایت کی تھی۔
6)۔ مذکورہ بالا سطور میں پیش کی گئی نئی عالمی صورتحال سے نئی سرد جنگ شروع ہونے کا عندیہ ملتا ہے۔ ایسی سرد جنگ جس میں بین الاقوامی تعلقات عامہ میں اتفاق رائے کی بجائے اختلاف رائے فروغ پا رہا ہے۔ سکیورٹی لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ عالمی طاقتوں کا ایکدوسرے پر اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ٹکراو کی کیفیت پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ اجتماعی مفادات بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔ یوکرین جنگ کے بعد روس اس نتیجے پر پہنچا کہ مغربی ممالک کی نظر میں اس کے جیوپولیٹیکل مفادات اور سکیورٹی امور کا کم از کم احترام بھی نہیں ہے۔ اسی وجہ سے روس نے اینٹ کا جواب پتھر کی صورت میں دینے کا فیصلہ کیا اور جیوپولیٹیکل محاذ پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے ٹکر لینے کا فیصلہ کر لیا۔

7)۔ چین بھی اگرچہ مغرب سے تعلقات کشیدہ ہونے سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے اور امریکہ اور مغربی ممالک سے مقابلے بازی کو صرف اقتصادی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں تک محدود رکھنا چاہتا ہے لیکن اس کے باوجود بین الاقوامی سفارتی محاذوں پر مغرب مخالف موقف اپناتا ہے تاکہ نئے ورلڈ آرڈر کی تشکیل میں خود کو ایک فعال کھلاڑی ظاہر کرے۔ مختصر یہ کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران عالمی سطح پر رونما ہونے والے حالات اور بحرانوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ نیا ورلڈ آرڈر تشکیل پا رہا ہے۔ لہذا بین الاقوامی کھلاڑی نئے ورلڈ آرڈر میں زیادہ سے زیادہ مفادات اور مواقع حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ اسی طرح ان کی یہ بھی کوشش ہے کہ مدمقابل کے کم از کم مفادات یقینی ہو سکیں۔بشکریہ اسلام ٹائمز

 

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …