ہفتہ , 2 دسمبر 2023

غزہ کی خاموش چیخیں

 (ڈاکٹر شہلا نقوی)

کل سے غزہ کا رابطہ دنیا سے ٹوٹ گیا۔ اب وہاں سے کوئی حقیقی تصویر اور آواز ہم تک نہیں پہنچ رہی۔کل تک، جب امریکی ٹی وی پر غزہ کی فلم چلتی تھی تو اسے بے آواز رکھا جاتا تھا۔ لاکھوں ڈالر کے اشتہارات دینے والی یہودی سرمایہ داروں کے میڈیا کنسلٹنٹس کا یہی حکم رہا ہو گا۔ ایسا نہ ہو کہ بلکتے ہوئے بچوں، زخمی بچے کو دیکھ کر چیخ کر بے ہوش ہوتی ماں یا اپنی بے بسی پر گریہ کناں باپ کی آواز کسی کے دل کو چھو لے۔ تصویریں بھی وہ لگائی جاتی ہیں جو اتنے فاصلے سے لی گئی ہوں کہ چہروں پر بنے دہشت و غم کے سائے دھندلا جائیں۔ ورنہ دہشت کی چیخ کی بھی ایک شکل ہوتی ہے جس کی ایڈورڈ منچ نے اپنی پینٹنگ ”چیخ“ میں تجسیم کیا ہے۔

ان احکامات میں یہ بھی شامل ہے کہ جب ستارہ داؤد کا سفید اور نیلا پرچم لہراتی ہوئی عورت کہے ”تم سب مر جاؤ“ تو اس کی آواز بس اتنی دھیمی کی جائے کہ اس کا جذبہ تو سننے والوں کے پاس پہنچ جائے لیکن بچوں اور عورتوں کے لیے ان جذبات کے اظہار میں اس کی درندگی کا احساس کم ہو جائے۔

برسہا برس سے ہم ذرائع ابلاغ میں چینی حکومت کے خلاف پتھر پھینکنے والوں کو مجاہدین آزادی کے لقب کے ساتھ دیکھ رہے ہیں اور اسی دورانیے میں کسی فلسطینی لڑکے کو اسی اقدام پر دہشت گرد قرار دیتا دیکھتے رہے ہیں۔ دولت نے ہمیں حقیقت کو توڑ مروڑ کر جو روپ دکھانا چاہا ہم دیکھتے رہے۔

اب شہریوں کو ٹک ٹاک جیسے مواصلاتی ادارے حاصل ہو گئے ہیں جن پر وہ اپنی آپ بیتیاں لکھ رہے ہیں۔ اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ہمیں علم نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ اسرائیلی حکومت اس کام کے لیے بھی پیسے دے کر اپنی ایک نئی فوج تیار کر چکی ہے جو کبھی پرانی فلموں اور کبھی ویڈیو گیمز کی تصاویر سے اس بیانیے کو گدلا کرنے میں مشغول ہیں۔

اس کے باوجود کل تک مجھے اپنے فون پر عربی میں وہ دلفگار نوحے سننے کو ملتے رہے ہیں جنہیں سمجھنے کے لیے مجھے انگریزی کے سب ٹائٹلز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ ننھا سا دو ڈھائی سال کا بچہ معجزانہ اپنے گھر کے ملبے سے نکالا گیا ہے، وہ اس کی چورا دیواروں کی خاک سے اٹا ہوا، سوکھی، دہشت زدہ آنکھوں سے اطراف کو دیکھ رہا ہے، وہ صرف اس وقت بلک کر روتا ہے جب ایک انجان شخص اس کو سینے سے لگا لیتا ہے، گویا پہلے اسے اندیشہ تھا کہ دنیا سے ہمدردی اور محبت ختم ہو چکے ہیں۔

وہ زخمی لڑکا غالباً دس سال کا ہو گا جو اپنے بھائی کی لاش کو چوم کر رخصت کرنا چاہتا ہے اور رو رو کر کہہ رہا ہے وہ تو مجھے باہر نکال رہا تھا جب چھت اس پر گر پڑی۔

وہ آٹھ سال کا بچہ جو چھوٹے بھائی کی گیند اٹھانے گیا اور واپس پہنچا تو بھائی گولی کا نشانہ بن چکا تھا۔ اس نے کہا میں اپنے بھائی اور اس کی گیند دونوں اٹھا لایا۔

ایک انگریزی بولنے والے فلسطینی نامہ نگار نے کہا ”پانی کی صرف ایک چھوٹی سی بوتل بچی تھی، میں نے صرف ایک گھونٹ لیا تاکہ سب کو ایک ایک گھونٹ مل جائے لیکن چھوٹے بیٹے نے بوتل منہ سے لگا کر آدھی کر دی۔ میں نے اسے کچھ نہیں کہا، مجھے اندازہ ہے کہ ہمارے درمیان کوئی بھی گفتگو آخری گفتگو ہو سکتی ہے۔

ہم کتنی آسانی سے زندگی کا کیا بھروسا کہہ دیتے ہیں۔ لیکن جہاں موت اتنی عام کر دی گئی ہے وہاں زندگی کی طلب اور اس کے لیے جدوجہد کرنے کا جذبہ ختم نہیں ہوا ہے۔ غزہ کی ان حقیقی تصویروں میں چیخ و پکار کی آوازوں کے درمیان لوگ ملبے سے سے زخمیوں کو نکال رہے ہیں، جان بچانے کے لیے سی پی آر کر

رہے ہیں، بمباری سے شکستہ سڑکوں پر ہر گاڑی ایمبولینس بن کر زخمیوں کو اسپتال پہنچا رہی ہے۔ اسپتال جہاں ڈاکٹر تو ہیں لیکن پانی اور بجلی نہیں ہیں اور ایک بم نے چھہ سو جانیں لے کر بتا دیا کہ اسپتال جائے پناہ بھی نہیں ہیں۔ اور یہ پہلا اسپتال نہیں تھا جو اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنا ہے۔

اسرائیلی ڈیفنس فورس (آئی ڈی ایف) میں سب نوجوانوں کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ آئی ڈی ایف کی سروس سے فارغ ہونے والوں نے ایک تنظیم بنائی ہے جس نے ایک ہزار بیانات جمع کیے ہیں کہ ان سے نہتے فلسطینیوں پر جو ظلم کرائے گئے ہیں ان پر وہ کتنے پشیمان ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں امن و امان کے لیے فلسطینیوں کو انسانی حقوق دینے ضروری ہیں، یہ نقار خانے میں طوطی کی آواز ہے۔ اسرائیلی حکومت امن نہیں چاہتی اس کے عزائم میں ایک ایسا نقشہ ہے جس میں اردن، شام، لبنان اور مصر کے کچھ علاقے شامل ہیں۔

عرب ممالک، مسلمان ممالک، ساری دنیا، دیکھ رہی ہے۔ ہر جگہ عوام اس کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ منصف مزاج یہودی مغربی دنیا میں اس جارحیت کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں، کٹر مذہبی یہودی چلا رہے ہیں کہ ہمارے مذہب کا نام بدنام ہو رہا ہے یہ سب گناہ ہے!

لیکن ہر جگہ ریاست، دولت اور طاقت اسرائیل کی پشت پناہ ہے۔ اسرائیل انگلستان اور امریکہ کی ناجائز اولاد ہے وہ کیوں اس کا تحفظ نہ کریں گے۔ اس کا منصوبہ تو پہلی جنگ عظیم کے بعد ہی انگلستان میں بن چکا تھا لیکن دوسری جنگ عظیم میں جب جرمنی میں یہودیوں پر ظلم کیے گئے تو گویا اس کا مداوا کرنے کے لیے یہودیوں کے دہشت گردی سے فلسطینیوں کو ان کے مکانوں اور زمینوں سے بے

دخل کیے جانے کو گویا جائز سمجھ لیا گیا۔ مستقبل میں اسرائیل کے پرائم منسٹر بننے والے مناخم بیگن نے ایک بسے ہوئے فلسطینی گاؤں کو توپوں سے اڑوا دیا تھا تا کہ دوسرے گاؤں والے دہشت زدہ ہو کر انھیں چھوڑ دیں۔ اس نے خود فخریہ اپنے آپ کو ٹیرورزم، دہشتگردی کا موجد قرار دیا تھا۔ اس وقت کا اسرائیلی پرائم منسٹر نیٹانیاہو کا باپ اور اوباما کے چیف آف سٹاف رام ایمانیوئل کا باپ دونوں اس قسم کی دہشت گردی میں فخریہ ملوث رہے تھے۔ لہاذا ان گورے ممالک سے فلسطینیوں کی امداد کی توقع بے کار ہے۔

اس وقت صرف سعودی عرب ہے جو مغربی معیشت میں سے اپنی دولت نکالنے کی دھمکی سے، صرف تین مہینے تیل نہ بینچ کر ان کی معیشت کا پہیہ جام کر سکتا ہے۔ لیکن نرم گدیلوں پر بیٹھے وہ نرم لہجوں میں ”بس، بس“ کہنے سے زیادہ کچھ کہنے کو تیار نہیں نظر آتے۔ تن آسانی ان کا رواج رہی ہے اور وہ مغربی حکومتوں کے ہاتھوں ایران، لیبیا، شام اور لبنان کا حشر بھی دیکھ چکے ہیں۔ اب غالباً وہ خود عرب اور مسلمان رشتوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اس ”دولت طاقت کلب“ کے ممبر بننے کے خواہشمند ہیں۔ لیکن وہ برابری کی امید نہ رکھیں ان سے ممبر شپ فیس لینے کے بعد کوئی نہ کوئی گوری قوم ان کا داخلے کو بلیک بال کر دے گی۔بشکریہ ہم سب نیوز

 

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …