پیر , 11 دسمبر 2023

پاکستان کے لیے عبدالعلیم خان کیا کر سکتے ہیں؟؟

(محمد اکرم چوہدری)

استحکام پاکستان پارٹی نے اپنی انتخابی مہم شروع کر دی ہے اور ایک مشکل جگہ پہلا جلسہ کر کے عوامی توجہ ضرور حاصل کی ہے ۔ لوگوں کی بہت بڑی تعداد آئی پی پی کے پہلے جلسے میں موجود تھی۔ پارٹی ورکرز اور حاضرین کی بڑی تعداد یقینی طور پر آئی پی پی کی قیادت کے لیے حوصلہ افزا ہے ۔ پنجاب میں آئی پی پی کا اصل مقابلہ مسلم لیگ ن کے ساتھ ہے ۔ پاکستان کے لیے درد رکھنے والے سیاست دانوں کے پاس بھی جہانگیر ترین اور عبد العلیم خان کی قیادت میں ایک سنہری موقع ضرور ہے کہ وہ تعمیر کی فکر اور صلاحیت رکھنے والوں کے ساتھ مل کر خوابوں کو حقیقت میں بدل سکتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جہانگیر خان ترین اور عبدالعلیم خان کی تعمیری صلاحیتوں سے ابھی تک فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں اور آئی پی پی کی قیادت میں ایک بنیادی فرق ہے انسانی وسائل کی صلاحیتوں کو نکھارنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی خوبی ہے ۔ عبدالعلیم خان یہ کام کرنے کے ماہر ہیں اور وہ باصلاحیت افراد کی قدر کرنے اور انہیں صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع فراہم کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں ۔ وہ ٹیم بنانے اور ٹیم ورک پر یقین رکھتے ہیں ۔ وہ اختیارات کو ایک جگہ رکھنے کے بجائے ذمہ داری لوگوں پر ڈالنے اور ان میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے کے قائل ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں قابل اور باصلاحیت افراد موجود نہیں ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ دیگر بڑی اور پرانی سیاسی جماعتوں میں سب سے بڑی خامی یہی ہے کہ وہ متبادل قیادت کو سامنے نہیں آنے دیتے۔ انسانی وسائل کا بہتر فائدہ نہیں اٹھاتے ، ساتھ کام کرنے والوں پر حکم چلاتے ہیں ، انہیں سوچنے اور تخلیقی کام کا موقع فراہم نہیں کرتے۔ اختیارات تقسیم نہیں کرتے ، مرکزیت کے قائل ہیں، موروثیت قائم کرتے ہیں اور لوگوں کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم نہیں کرتے ۔ سوچ کو قید کرتے ہیں، خیالات پر پہرے بٹھاتے ہیں، اراکین اسمبلی نہیں ان کے ووٹ کو اہمیت دیتے ہیں ۔ سیاسی جماعت کو ملکی خدمت کے قابل بنانے کے بجائے انہیں "یس سر” کہنے والوں کا گروہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان میں اگر حقیقی جمہوریت نظر نہیں آتی ، سیاسی جماعتوں کے پاس متبادل قیادت نہیں ہے وہاں تخلیقی کام نہیں ہوتا یا لوگوں کا اعتماد سیاسی نظام پر نہیں ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ بڑی سیاسی جماعتوں کی اعلی قیادت ہے ۔

استحکام پاکستان پارٹی کے حوالے سے بات کی جائے تو یہاں مکمل طور پر مختلف صورت حال ہے۔ یہاں جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان جیسے باصلاحیت منتظمین موجود ہیں ۔ یہ سیاسی ، سماجی اور کاروباری طور پر اسی لیے کامیاب ہیں کہ ٹیم ورک پر یقین رکھتے ہیں۔ ٹیم بناتے ہیں اور باصلاحیت افراد کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں ۔ بالخصوص عبدالعلیم خان پاکستان کی سیاست میں وہ واحد سیاست دان ہیں جو اچھی سیاسی ٹیم بنانے اور ملک کو متبادل سیاسی قیادت دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ واحد سیاست دان ہیں جو سماجی و فلاحی کاموں میں بھی کسی بھی قسم کے عطیات اکٹھے کیے بغیر تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کروڑوں روپے خرچ کر کے وسائل سے محروم پاکستانیوں کو معاشرے کا اہم فرد بنانے اور خود مختار بنانے کی قومی ذمہ داری نبھا رہے ہیں ۔ استحکام پاکستان پارٹی کے پلیٹ فارم سے ملک بھر کے سیاست دانوں کو بھی اپنی صلاحیتوں کے اظہار اور ملک کی خدمت کے یکساں مواقع دینے اور انہیں ایک ووٹر کے بجائے ایک درد مند پاکستانی کے طور پر کام کرنے کی سوچ کو آگے بڑھانے کا عزم لےکر میدان عمل میں ہیں ۔ درحقیقت پاکستان کو ایسی ہی سیاسی سوچ اور قیادت کی ضرورت ہے ۔ ایسی قیادت جو انسانوں کے معیار کو بلند کرنے انسانی وسائل سے بہتر انداز میں فائدہ اٹھائے، ہر شخص کو ملک کی خدمت کرنے کے مواقع فراہم کرے اور انہیں یہ احساس دلائے کہ ملک کی خدمت کے لیے عہدوں کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ ملک کی خدمت کےلئے اپنی اپنی جگہ رہ کر کام کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان کے روایتی سیاسی کلچر کو بدلنے کےلئے عبدالعلیم خان جیسی سوچ کی ضرورت ہے اور اگر کوئی سیاست دان حقیقی معنوں میں ملک میں وسائل کی بہتر انداز میں تقسیم چاہتا ہے تو اسے بھی استحکام پاکستان پارٹی کے منشور پر عمل کرنا چاہیے۔ جب تک وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ہو گی عام آدمی کو اس کا جائز حق اور مقام نہیں دیا جائے گا اس وقت تک کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے اور پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایسی ہی تبدیلی کی ضرورت ہے ۔ استحکام پاکستان پارٹی کے منشور میں فلاحی کاموں کا جتنا بھی ذکر ہے بنیادی طور پر یہ عبدالعلیم خان کا وژن ہے۔ بے گھر افراد کو گھر، کچی آبادی والوں کا مالکانہ حقوق یا اپارٹمنٹس ، غریبوں کےلئے کھانا ، صحت کہ بہتر سہولیات اور اچھی تعلیم، ان شعبوں میں آئی پی پی کے صدر برسوں سے کام کر رہے اگر پاکستان کے لوگ ان پر اعتماد کرتے ہیں اور انہیں حکومت بنانے کا موقع ملتا ہے تو پھر یقینی طور پر فلاحی ریاست کے خواب کو تعبیر مل سکتی ہے ۔ اس میں بھی کچھ شک نہیں کہ ملکی سطح پر جہانگیر خان ترین کی صلاحیتوں سے بھی بہتر انداز میں فائدہ نہیں اٹھایا گیا ۔ اب استحکام پاکستان پارٹی کے پلیٹ فارم سے وہ بہتر انداز میں ملک کی خدمت کر سکتے ہیں۔ بالخصوص عبدالعلیم خان جس انداز میں ہیومن ریسورس کا استعمال کرتے ہیں ان کی یہ صلاحیت بہت ہی شاندار ہے اور پاکستان کو اس وقت ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہے۔ جو لوگ آئی پی پی میں آئے ہیں ان کے لیے بھی ملک کی خدمت کا اچھا موقع ہے۔ فلاحی کام کرنے والے اگر اقتدار میں آتے ہیں تو وہ عام آدمی کے مسائل حل کرنے کے لیے زیادہ بہتر انداز میں کام کر سکتے ہیں۔ سیاست دانوں کو چاہیے کہ اسے عبادت سمجھیں۔ ملک کی خدمت کریں اگر ملک ترقی کرے گا تو سب کا فائدہ ہو گا۔ عام آدمی کی دعائیں لیں، کروڑوں لوگوں کو خوراک، صحت، تعلیم اور رہائش کی بہتر سہولیات کی ضرورت ہے استحکام پاکستان پارٹی نے اپنے منشور میں ان بنیادی ضروریات کو ہدف بنایا ہے۔ عام آدمی، مشکلات کا شکار عام پاکستانی اگر یہ سمجھتا ہے کہ اس کے مسائل دہائیوں سے حل طلب ہیں تو پھر آئندہ عام انتخابات میں آزمائی ہوئی سیاسی جماعتوں اور سیاسی شخصیات کے بجائے استحکام پاکستان پارٹی عبدالعلیم خان اور ان کے ساتھیوں پر اعتماد کا اظہار کرنا چاہیے۔بشکریہ نوائے وقت

 

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …