اتوار , 3 دسمبر 2023

فلسطین: موت رقص کناں ہے اور امن کی فاختہ اداس ہے

(ڈاکٹر خالد سہیل)

سنو اے ساکنان خاک پستی
صدا یہ آ رہی ہے آسماں سے
کہ آزادی کا اک لمحہ ہے بہتر
غلامی کی حیات جاوداں سے
جوش ملیح آبادی
۔ ۔ ۔
حماس کا پہلا حملہ
۔ ۔

سات اکتوبر دو ہزار تئیس کو جب حماس نے سینکڑوں میزائلوں اور ہزاروں راکٹوں سے حملہ کیا تو اسرائیل اور امریکہ کیا ساری دنیا میں کسی کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ حماس اتنا تباہ کن حملہ کرنے کے قابل ہے۔

حماس کے اس ہولناک حملے سے اسرائیلی حکومت اور فوج حیران بھی ہوئے اور پریشان بھی کیونکہ اس دن نہ تو ان کی انٹیلی جنس نے کام کیا اور نہ ہی ان کے کئی بلین ڈالر کے خریدے آئرن ڈوم نے جس کا کام غزہ سے آنے والے دشمن کے راکٹوں اور میزائلوں کو ہوا میں ہی تباہ کرنا تھا۔

حماس کا پہلا حملہ ایک موسیقی کے تہوار پر تھا۔ تین ہفتوں کے بعد حماس کے حملے اب بھی جاری ہیں۔ ان حملوں میں اب تک چودہ سو سے زائد معصوم اسرائیلی شہری مر چکے ہیں۔

حماس نے جب حملہ کیا تو واپس جاتے ہوئے وہ دو سو سے زیادہ شہری اپنے ساتھ اٹھا کر لے گئے۔ وہ مجبور مرد عورتیں اور بچے اب تک حماس کے پاس جنگی قیدیوں کی طرح موجود ہیں۔

۔ ۔
اسرائیل کا جوابی حملہ
۔ ۔ ۔

حماس کے راکٹوں اور میزائلوں کے پہلے حملے کے بعد اسرائیل نے جہازوں اور توپوں سے غزہ پر تابڑ توڑ حملے کیے۔ چونکہ اسرائیل کی فوج حماس سے کئی گنا زیادہ طاقتور ہے اس لیے ان کے تین ہفتوں کے حملوں سے اب تک فلسطینی اموات کی تعداد آٹھ ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے۔

اسرائیل کے بم عوام کی رہائش گاہوں اور بلڈنگوں پر گر رہے ہیں اس لیے مرنے والوں میں معصوم عورتیں اور مرد ’بچے اور بوڑھے سبھی شامل ہیں۔

حماس کے حملے کے مقابلے میں اسرائیل کا فوجی رد عمل بہت شدید بھی ہے اور بھیانک بھی۔
۔ ۔ ۔
حمایت
۔ ۔ ۔

اسرائیلی فوج کی حمایت کرنے والوں میں امریکی حکومت سر فہرست ہے جس نے پہلے اپنا سیکرٹری آف سٹیٹ اینٹنی بلنکن اور پھر امریکی صدر جو بائیڈن اسرائیل بھیجا جس نے اسرائیل کے وزیر اعظم بین جامین نیٹن یاہو کو نہ صرف گلے لگایا بلکہ جنگ میں غیر مشروط ساتھ دینے کا وعدہ بھی کیا۔

جنگ میں اسرائیل کا ساتھ دینے اور امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے والوں میں کینیڈا ’انگلستان‘ فرانس اور جرمنی بھی شامل ہیں۔

اسرائیلی وزیر اعظم نے بیان دیا کہ حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور ہماری سلامتی کے لیے خطرہ ہے اس لیے اپنے تحفظ کے لیے ہمیں اس دہشت گرد تنظیم کو نیست و نابود کرنا اور صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔

جہاں اسرائیل کی کئی مغربی ممالک نے حمایت کی وہیں حماس کا ساتھ دینے والوں میں لبنان کی حزب اللہ اور ایرانی حکومت سر فہرست ہیں۔

۔ ۔ ۔
حماس کے حملے کی وجہ
۔ ۔ ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنے حملے کے لیے حماس نے سات اکتوبر کا دن کیوں چنا؟ یہ حملہ ایک مہینہ پہلے یا دو مہینے بعد کیوں نہ ہوا؟

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ سعودی عرب پر دباؤ ڈال رہا تھا کہ وہ اسرائیل سے امن کا معاہدہ کر لے۔ سعودی عرب تیار بھی ہو گیا تھا اور اگر یہ حملہ چند دن یا چند ہفتے بعد ہوتا تو عین ممکن تھا کہ اس معاہدے پر دونوں ممالک دستخط کر چکے ہوتے۔

حماس کے رہنما نہیں چاہتے تھے کہ اس معاہدے پر دستخط ہوں کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ اگر سعودی عرب کے اس معاہدے پر دستخط ہو گئے تو فلسطین کی آزادی اور خود مختاری کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے گا۔

حماس کے لیڈر جانتے ہیں کہ جب انیس سو بیاسی میں مصر نے اسرائیل کے ساتھ امن کا معاہدہ کیا تھا تو پی ایل او کے لیڈر یاسر عرفات کو مصر سے ٹیونیسیا جانا پڑا تھا جس سے فلسطین کی جدوجہد کو بہت نقصان پہنچا تھا۔

حماس کے جانبازوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور ساری دنیا کو بتایا کہ اسرائیل ٹینکوں اور بموں سے لیس سہی لیکن وہ بھی اسرائیل سے ٹکرانے اور اپنی آزادی کے لیے سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔

حماس کو یقین تھا کہ ان کا بھرپور حملہ فلسطینیوں کے مسئلے کو بین الاقوامی سیاست کی شہ سرخی بنا دے گا۔

حماس نے۔ یا اب یا کبھی نہیں۔
NOW OR NEVER
کے فلسفے پر عمل کیا۔

ان کے لیے یہ جنگ آخری جنگ ہے۔ اس جنگ سے یا تو فلسطینیوں کو آزادی مل جائے گی اور وہ علیحدہ ریاست بنا پائیں گے اور یا فلسطین کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مر جائے گا۔

بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے کہ حماس کی اسرائیل نے خود پرورش کی ہے۔ اسرائیل نے جب یاسر عرفات کی مخالفت کی تھی تو انہوں نے حماس کو یاسر عرفات کے خلاف استعمال کیا تھا۔

یاسر عرفات ایک سیکولر نیشنلسٹ تھے جبکہ حماس کے رہنما اسلام پسند تھے اور مسلح جدوجہد پر یقین رکھتے تھے۔ اسرائیل کو کیا خبر تھی کہ جس جماعت کو وہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں ایک دن وہی جماعت ان پر حملہ آور ہو جائے گی۔

۔ ۔ ۔ ۔
خفیہ سرنگیں اور قیدی
۔ ۔ ۔ ۔

حماس نے اسرائیل کو سب سے بڑا سرپرائز یہ دیا ہے کہ انہوں نے غزہ میں زیر زمین خفیہ سرنگیں بنا رکھی ہیں جو سینکڑوں میلوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ان خفیہ سرنگوں مین لینڈ لائن فون اور اسلحہ بھی ہے ’ہسپتال بھی ہیں اور قیدیوں کو رکھنے کا انتظام بھی ہے۔

اسرائیلی فوجیوں کو زمینی حملہ کرنے کا یہ خطرہ ہے کہ حماس کے جنگجوؤں کو مارتے مارتے کہیں وہ اپنے قیدیوں کو بھی نہ قتل کر دیں۔

قیدیوں کے رشتہ دار چاہتے ہیں کہ جنگی قیدیوں کا تبادلہ ہو جائے
اسرائیل کے پاس چھ ہزار فلسطینی قیدی
اور
حماس کے پاس دو سو اسرائیلی قیدی ہیں
اسرائیل حکومت ابھی تک قیدیوں کے تبادلے کے لیے بالکل رضامند نہیں۔
۔ ۔ ۔ ۔
اقوام متحدہ
۔ ۔ ۔

جب جنگ کے شعلے اور بلند ہوئے تو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں روس نے جنگ بندی کی قرار داد پیش کی لیکن اس قرار داد کو امریکہ نے ویٹو کر دیا۔ چنانچہ

جنگ جاری رہی
بم گرتے رہے
معصوم بچے اور بوڑھے ’مرد اور عورتیں مرتے رہے اور
ساری دنیا اپنے ٹیلی ویژن اور سیل فون کی سکرین پر جنگ کے ہولناک مناظر دیکھتی رہی۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جنگ بندی میں کامیاب نہ ہوئی تو جنرل اسمبلی کی میٹنگ بلائی گئی اور جنگ بندی کی قرار داد پیش کی گئی۔ اس قرار داد کے

حق میں ایک سو بیس ممبر
خلاف چودہ ممبر
اور خاموش رہنے والے پینتالیس ممبر تھے۔
وہ قرارداد دو تہائی ووٹوں کی اکثریت سے پاس ہو گئی۔

چونکہ جنرل اسمبلی کی قرار داد پر عمل کرنا لازمی نہیں ہوتا اس لیے اسرائیل نے اسے در خور اعتنا نہ سمجھا اور غزہ پر اپنے حملے جاری رکھے۔

۔ ۔ ۔
دہشت گرد
۔ ۔ ۔
ایک طرف اسرائیل کا ساتھ دینے والے مغربی ممالک نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے

دوسری طرف مشرقی اور مسلم دنیا امریکہ اور دیگر مغربی ممالک پر معترض ہے کہ وہ اسرائیل کے حملوں کی حمایت کر رہے ہیں۔

جب اسرائیل کے حملے جاری رہے تو ترکی کے صدر تیپ ارگدان نے لاکھوں لوگوں کے جلسے میں اعلان کر دیا کہ
حماس ایک حریت پسند تنظیم ہے
اگر اس جنگ میں کوئی دہشت گرد ہے تو وہ اسرائیلی وزیر اعظم ہے جو جنگ بندی کے لیے تیار نہیں۔
تاریخ کے اوراق ہمیں بتاتے ہیں کہ جنگ جیتنے والے حریت پسند اور ہارنے والے دہشت گرد کہلاتے ہیں
WINNERS ARE FREEDOM FIGHTERS
LOSERS ARE TERRORISTS
۔ ۔
تضادات
۔ ۔ ۔

بین الاقوامی تضادات اس وقت ایک قدم اور آگے بڑھے جب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اینٹونیو گوٹیریس نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں حماس کے حملے کی مذمت کرتا ہوں کیونکہ اس حملے سے بہت سی معصوم جانیں ضائع ہوئی ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ حملہ خلا میں نہیں ہوا۔ یہ حملہ اس پس منظر میں ہوا ہے کہ فلسطینی کئی دہائیوں سے حق خود ارادیت سے محروم ہیں اور ایک ایسی بڑی جیل میں رہ رہے ہیں جہاں ان کے کھانے پینے کام کرنے اور سفر کرنے پر بے جا پابندیاں ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے فلسطینیوں کے بارے میں ہمدردانہ بیان سے اسرائیل کا نمائندہ گیلاد ارڈن اتنا سیخ پا ہوا کہ اس نے سیکرٹری جنرل کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ دلچسپی کی بات یہ تھی کہ سیکرٹری جنرل اپنے بیان پر ڈٹے رہے۔

بہت سے لوگ حیران ہیں کہ ان کی زندگی میں پہلی دفعہ فلسطین کے حق اور اسرائیل کے خلاف ساری دنیا میں اتنے زیادہ جلسے اور جلوس نکل رہے ہیں۔

ساری دنیا دو ریاستی حل کا مطالبہ کر رہی ہے۔
۔ ۔
پانسہ پلٹ گیا
۔ ۔ ۔

ساری دنیا میں وہ لوگ جو اسرائیل اور امریکہ کے حق میں تھے ان میں سے بہت سے ان کے اس دن خلاف ہو گئے جس دن اسرائیل نے ایک ہسپتال پر بم پھینکا اور پانچ سو سے زائد مریض اور ڈاکٹر مارے گئے۔

اس حادثے کے بعد بہت سے ممالک میں سینکڑوں ’ہزاروں‘ لاکھوں عوام گلیوں بازاروں اور سڑکوں پر نکل آئے اور جنگ بندی کا مطالبہ کرنے لگے لیکن اسرائیل کے وزیر اعظم نے ایک نہ سنی۔ اس کا کہنا تھا

CEASE ایف آئی آر E IS SURRENDER

جوں جوں اسرائیل غزہ پر آسمانی اور سمندری حملے کے ساتھ زمینی حملہ کر رہا ہے ساری دنیا کے عوام اور ممالک اس کے خلاف ہو رہے ہیں۔

غزہ کے شمال میں ایک رفیوجی کیمپ پر بم پھینکنے اور پچاس سے زیادہ معصوم شہریوں کو قتل کرنے نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ ہسپتال کے ڈاکٹر مجبور ہیں کیونکہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے وہ آپریشن کر کے مریضوں کی جانیں بھی نہیں بچا سکتے۔

لاشیں گدھا گاڑیوں پر جا رہی ہیں کیونکہ پٹرول کے بغیر ایمبولینسیں بھی نہیں چل سکتیں۔
۔ ۔ ۔
عالمی جنگ کا خطرہ
۔ ۔ ۔

جب سے امریکہ نے اسرائیل کی حمایت میں اپنے بحری جنگی جہاز مشرق وسطیٰ بھیجے ہیں روس ’چین اور ایران بھی جنگی کارروائی کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔

بعض ماہرین جنگ کو خدشہ ہے کہ کہیں یہ جنگ پھیل کر غزہ سے مشرق وسطیٰ کی جنگ اور پھر اور بڑھ کر عالمی جنگ نہ بن جائے۔

اسرائیلی حکومت نہ غزہ کے شمال میں رہنے والوں سے کہا ہے کہ وہ جنوب کی طرف ہجرت کر جائیں کیونکہ اسرائیلی فوج حماس کے جنگجوؤں کو تباہ و برباد کرنے کے لیے سرنگوں پر بمباری کرنا چاہتی ہے۔

فلسطینیوں کے لیے سب طرف کے راستے بند ہیں
علی سردار جعفری فرماتے ہیں
۔ راستے بند ہیں سب کوچہ قاتل کے سوا
موجودہ جنگ میں مغرب ایک طرف ہے اور مشرق ایک طرف
اسرائیل کی حمایت کرنے والوں میں امریکہ کینیڈا انگلستان جرمنی اور اٹلی شامل ہیں
فلسطینیوں کی حمایت کرنے والوں میں روس ’چین‘ ایران ’ترکی اور یمن شامل ہیں۔
روس ایٹمی ہتھیاروں کے معاہدے کو بھی مسترد کرنے کا سوچ رہا ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ روس امریکہ سے ناراض ہے کیونکہ امریکہ نے یوکرین کا ساتھ دیا ہے۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے روس حماس اور فلسطینیوں کا ساتھ دے رہا ہے۔

مشرق وسطیٰ ہی نہیں ساری دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔
تین ہفتوں سے موت کا رقص جاری ہے اور امن کی فاختہ اداس ہے۔
اب تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی جنگ بند کروانے میں ناکام رہی ہے۔
۔ ۔
بچے
۔ ۔ ۔
چاہے وہ
مسلمان بچے ہوں یا یہودی بچے
اسرائیلی بچے ہوں یا عرب بچے
کالے بچے ہوں یا گورے بچے
غریب بچے ہوں یا امیر بچے
مشرقی بچے ہوں یا مغربی بچے
بچوں کے بارے میں میرے چند اشعار ہیں
وہ جس کسی کی بھی آغوش جاں کے بچے ہیں
نوید صبح ہیں سارے جہاں کے بچے ہیں
نئی کتاب مدلل جواب چاہیں گے
ہمارے بچے نیا اب نصاب چاہیں گے
روایتوں کے کھلونوں سے دل نہ بہلے گا
بغاوتوں سے منور شباب چاہیں گے
حساب مانگیں گے اک دن وہ لمحے لمحے
ہمارے عہد کا وہ احتساب چاہیں گے۔
۔ ۔ ۔
ایک باپ کی اولاد
۔ ۔ ۔

آج سے چند دہائیاں پیشتر جب مجھے کینیڈین پاسپورٹ ملا تو میں نے اسرائیل اور فلسطین کے سفر کا ارادہ کیا کیونکہ میں وہاں پاکستانی پاسپورٹ پرنہ جا سکتا تھا۔ اس سفر کے بعد میں نے ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام تھا۔

۔ ایک باپ کی اولاد۔

۔ اس کتاب میں اپنی طبعزاد تخلیقات کے ساتھ ساتھ میں نے اسرائیلی اور فلسطینی ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات کے اردو ترجمے بھی شائع کیے تھے۔ وہ کتاب اب مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے لیکن اس کی صرف ایک کاپی میرے پاس موجود ہے۔ میں اس کتاب کے تین ادبی تحفے آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

۔ ۔ ۔
1۔ اسرائیل
۔ ۔ ۔
نفرت بھی عجب اور محبت بھی عجب تھی
اس شہر میں قربت کی روایت بھی عجب تھی
دیواریں تھی ہمراز مگر دل میں خلیجیں
ہمسایوں کی آپس میں رقابت بھی عجب تھی
اک باپ کی اولاد مگر خون کے پیاسے
دشمن تھے مگر ان میں شباہت بھی عجب تھی
خاموشی کا ہر لمحہ وہاں چیخ رہا تھا
آوازوں کی بستی میں بغاوت بھی عجب تھی
معصوم جبینوں پہ ملے خون کے چھینٹے
اور اس پہ ستم خون کی رنگت بھی عجب تھی
جو شخص ملا کانچ کا پیکر لگا مجھ کو
اور کانچ کی پتھر سے رفاقت بھی عجب تھی
ہر نسل نئی نسل کو دیتی رہی ہتھیار
اس شہر میں خالد یہ وراثت بھی عجب تھی
۔ ۔ ۔
2۔ تین سپاہی
۔ ۔
شہر یروشلم کے تین کونوں میں بیک وقت تین سپاہی بندوقوں سے لیس عبادت میں مصروف تھے۔
یہودی سپاہی
اے موسیٰ کے خدا!
میں تیرا شکر گزار ہوں کہ یہودی پیدا ہوا۔
میری زندگی کا مقصد تیرے فرمان پر عمل کرنا اور تیرے کلام کا بول بالا کرنا ہے۔
اے خدا!
تو مجھے اتنی ہمت دے کہ میں عیسائی اور مسلمان سپاہیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کروں اور ان کے سر قلم کر دوں۔
یہ شہر ہماری پانچ ہزار سالوں کی میراث ہے۔
عیسائی سپاہی
اے عیسیٰ کے خدا!
میں تیرا ممنون ہوں کہ تو نے ہمیں اپنا بیٹا دے کر نوازا۔
ہم اس پر ایمان لا کر اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرتے ہیں
میری زندگی کا مقصد اس شہر کی حفاظت کرنا ہے جہاں تیرے بیٹے کو یہودیوں نے سولی پر چڑھا دیا تھا۔
میں اس شہر کی حفاظت کے لیے جان کی قربانی دینے کو تیار ہوں۔
اے خدا!
مجھے اتنا حوصلہ دے کہ میں یہودی اور مسلمان سپاہیوں کو موت کے گھاٹ اتار دوں۔
مسلمان سپاہی
اے محمد کے خدا!
میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ امت محمد یہ میں پیدا ہوا۔
میرے لیے یہ باعث فکر ہے کہ میں اس جگہ رہتا ہوں جہاں محمد شب معراج کو تجھ سے ملنے گئے تھے۔
اس شہر کی حفاظت میرا دین و ایمان ہے۔
اے خدا!

مجھے اتنی طاقت دے کہ میں یہودی اور عیسائی سپاہیوں کو یہاں سے مار بھگاؤں یا صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر دوں۔

۔ ۔
3۔ یروشلم
۔ ۔ ۔
ابراہیم کا شہر کہ جس کی
بنیادوں کو محکم کرنے
امن نے مٹی عشق نے گارا
قربانی نے پتھر ڈالے
ابراہیم کا شہر کہ جس کی
دیواروں کو اونچا کرنے
موسیٰ عیسیٰ اور محمد
اپنی اپنی امت لائے
ابراہیم کا شہر کہ جس کے
میناروں کا حسن بڑھانے
فنکاروں نے برسوں مل کر
کیسے کیسے نقش بنائے
آج جو میں اس شہر سے گزرا
ایک عجب ہی منظر دیکھا
بنیادوں کو خون اگلتے
دیواروں کو گریہ کرتے
میناروں کو آہیں بھرتے
ہمسایوں کو لڑتے دیکھا
انسانوں کو مرتے دیکھا

بشکریہ ہم سب نیوز

 

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …