جمعہ , 8 دسمبر 2023

سید مقاومہ حسن نصر اللہ کی تقریر کے اھم نکات

بیروت:السلام علیکم!سب کو خوش آمدید کہتا ہوں، ہم اس وقت فخر محسوس کر رہے ہیں، اس وقت ہم تمام شہداء کی تکریم کے لئے جمع ہوے ہیں، جن میں صحافی بھی شامل ہیںسب سے پہلے شہداء کی فیملیوں سے کہتے ہیں، کہ آپ سب کو یہ اعزاز مبارک ہو، اور تعزیت بھی پیش کرتے ہیں، سب شہدا غزہ سے لیکر لبنان تک
ابھی شہدا کے بارے زیادہ گفتگو نہیں کرتا کچھ دن بعد پھر خطاب کرونگا، اس میں گفتگو ہو گی. البتہ یہ شہداء فوز عظیم پر فائز ہو چکے ہیں، ان کا مقام قابل تصور نہیں،
طوفان الاقصی اس وقت کئی علاقوں میں پھیل چکا ہے
شہدا اس وقت زندہ ہیں، خوش ہیں،
اور بشارت دےرھے ہیں،
سب شہداء کو مبارک باد پیش کرتا ہوں،
کیونکہ وہ جوار رب میں ہیں، وہاں نہ امریکہ ہے،
نہ صہیونی ہیں،
نہ قتل ہے،
نہ ظلم
ہمارا یہ عقیدہ ہے شہداء کے بارے.
شہداء کی فیملیز کو مبارک باد پیش کرتا ہوں.
صہیونیت سے جنگ سے زیادہ با فضیلت جہاد کوئی نہیں،
یہ عجیب با فضیلت جہاد ہے.یہ مکمل طور پر قانونی اور شرعی جہاد ہے،
جس کے بارے کوئی شک نہیں
شہداء کے خاندان کتنے عظیم ہیں، ان پر افتخار ہے،
غزہ کے عوام کی استقامت بھی کیا عجیب استقامت ہے، جس کی کوئی حد نہیں ایک آدمی کا گھر تباہ ہوتا ہے،
وہ تباہ شدہ گھر کے اوپر کھڑے ہوکر کہتا ہےمیرا سب کچھ مقاومت پر قربان ہے.
میں ان سب کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو اس وقت مقاومت کے ساتھ کھڑے ہیں، خصوصا عراقی مجاہدین، اور یمینی مجاہدین،
سات اکتوبر کو یہ سب کچھ کیوں ہوا؟
اپ سب جانتے ہیں 75 سال سے جو ظلم ہو رہا ہے، اور خصوصا پچھلے کئی سالوں سے اور خصوصا اس پاگل اور وحشی [نیتن یاھو کی] حکومت کے ہاتھوں،
ایک طرف قیدیوں کا موضوع ہے،
دوسرا موضوع مسجد اقصی ہے، جس کو بارا بار توھین کا نشانہ بنایا گیا
تیسرا غزہ کا حصار جس کو 20 سال سے زیادہ ہو چکا
چوتھا مغربی بنک کو لاحق خطرات
اس کے علاوہ روزانہ قتل اور ظلم اور اس طرح اور بہت اسباب ہیں
اور عجیب ہے، کہ اس پر کوئی نہیں بولتا، نہ اقوام متحدہ نہ کوئی اور تنظیم اور ساتھ یہ پاگل حکومت روز ظلم کر رہی تھی
لہذا کچھ بڑا ہونا چاہیے تھا، جو اس ظالم کے وجود کو ہلا کر رکھ دے،
اس لئے وہ بہت بڑا آپریشن دنیا نے دیکھا، جس کو قسام کے مجاہدین نے انجام دیا، اور باقی سب شریک ہوئے
.دوسرا نکتہ،
اس آپریشن کا فیصلہ، اس کو انجام دینا یہ سب کے سب فلسطینی فیصلہ تھا.جس کو سب سے خفیہ رکھا گیا، اور یہی اس کی کامیابی کا سبب بنا.اس کو خفیہ رکھنے پر ہم بہت خوش ہوئے، کیونکہ یہی کامیابی کی ضمانت تھی، کوئی اس بات سے ناراض نہیں ہوا،
حماس کے اس آپریشن نے ثابت کیا کہ کیا ہونا چاہیے تھا اور کیسے ہونا چاہیے تھا.طوفان الاقصی کے آپریشن جو خالصتا فلسطینی فیصلہ تھا، اس سے پتہ چلتا ہے، کہ یہ لڑائی فلسطینی لڑائی ہے،
اس کا کسی اور موضوع کے ساتھ تعلق نہیں.اور سب یہ جان لیں کہ فیصلہ مقاومت کی قیادت کرتی ہے،
ہمیں کوئی ڈیکٹیٹ نہیں کرتا، ہاں مشورہ ہوتا ہے، لیکن فیصلہ مقاومت کا ہوتا ہے، وہی فیصلہ کرتے ہیں
تیسرا نکتہ آپریشن اور اس کے نتائج،
یہ ایک عظیم آپریشن تھا، جس میں ابتکار اورجدت بھی تھی، نظم بھی، اور بہادری بھی
اس آپریشن نے اس حکومت کو ہلا کر رکھ دیااس کے اسٹریٹیجک نتائج ہیں، جن کی تاثیر بہت قوی ہیں اور اسرائیل ان نتائج کو تبدیل نہیں کر سکتا
اس آپریشن نے بہت سی حقیقتوں کو آشکار کیا، جن کی تفصیل بعد میں بیان ہوگی ،اہم نکتہ یہ کہ اس آپریشن نے اسرائیل کی کمزوری کو آشکار کیاخود اسرائیلی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اسرائیل مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور ہے .ابھی تک اسرائیلی اس آپریشن کے نتائج کو کم نہیں کر سکے، تاثیر وہیں کی وہیں ہے
تصور کریں پہلے دن سے ہی اس حکومت نے امریکہ کو پکارا، تیرے جہاز کہاں گئے، فوج کہاں ہے، تیری قوت کہاں غائب ہوئی،
امریکی کیوں ؟
پہلے دن اسرائیل نے نیا اسلحہ مانگا
10 ارب ڈالر مانگے،
یورپ کی حکومتوں سے درخواست کی،
اس طوفان نے تو اسرائیل کی کمزوری کس شان سے واضح کر دی
ہاں جو قربانیاں دی گئی،
وہ بہت زیادہ ہیں، لیکن اس جیسی کامیابی کے لئے ایسی قربانیاں ضروری ہیں.
کیونکہ اس طوفان الاقصی نے نئی تاریخ رقم کر دی،اور اس کے علاوہ اور کیا آپشن تھا، وہ سوائے ذلت کے کچھ نہیں
اچھا
دشمن کا رد عمل ملاحظہ کریں
پہلے لمحوں سے حیران و پریشان
پاگل پن،
غم و غصہ،
اور کوئی فیصلہ نہیں.
اس لئے جب یہ آباد کاروں کے ہاں گئے تو خود انہوں نے بہت سے آباد کار قتل کئے،
خود انہوں نے مارے نہ کہ حماس نے،
کیونکہ پاگل پن کا مظاہرہ کر رہے تھے.
مہم یہ ہے کہ یہ کبھی بھی نہیں سیکھتے.
ان کو کئی بار شکست ہوئی، کئی بار ذلت ہوئی لیکن یہ نہیں سیکھتے
سب سے بڑی غلطی جب یہ بڑے بڑے اہداف کا اعلان کرتے ہیں،مثلا کہتے ہیں حماس کو ختم کرنا ہے، یہ کیسا پاگل پن ہے، کیا یہ ماضی میں ایسا کر سکے،لبنان میں 2006 میں انہوں نے کہا حزب اللہ کو ختم کرنا ہے، اور دو قیدیوں کو بغیر شرط کے رہا کرنا ہے نہ حزب اللہ کو ختم کر سکے، نہ ہی قیدی چھڑا سکےاب یہی کچھ غزہ میں ہو رہا ہے،
ہاں غزہ میں ظلم بہت ہوا ہے اور ہورہا ہےجو کچھ اس وقت غزہ میں ہو رہا ہے، یہ اسرائیل کے احمق پن اور جنونی کیفیت کو بیان کرنا ہےبچوں کا قتل عورتوں کا قتل چرچ، مسجد ہسپتال سب پہ بمباری کر رہے ہیں.
لیکن ایک مہینہ گزرنے کے بعد ابھی تک کوئی ایک کامیابی دکھا دیں،
اب تک کی لڑائی میں کیا ہوا، کیا ان کو شکست نہیں ہوئی، کیا ابھی تک ذلیل نہیں ہوئے، جیسے یہ لبنان میں ہوئے تھے.
دنیا کو کہتا ہے ہم بری حملہ کرنا نہیں چاہتےحقیقت یہ ہے، کہ کر نہیں سکتے
یہ بزدل ہیں،ان کے ٹینک پر بم رکھا جاتا ہےیہ فوج ہے؟
غزہ والوں نے ان کے سامنے سفید جھنڈا نہین اٹھایا
ایک اور بات
جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، یہ اس حکومت کی وحشی پن کو بیان کرتی ہے، آج پھر سے یہ حکومت دنیا کے سامنے ننگی ہو چکی کہ نہ یہاں جمہوریت ہے، نہ انسانیت، نہ انسانی اقدار،
دوسری بات،
امریکہ اس ظلم کا برابر کا شریک اور ذمہدار ہے، تیس دنوں سے غزہ برباد ہو رہا ہے، اور سب خاموش ہیں،اور کہتے ہیں کہ غزہ والوں نے بچوں کے سر قلم کئے، اور کوئی دلیل نہیں،
لیکن غزہ میں ہزاروں بچے شہید ہوئے اس پر خاموشی،
کیا یہاں جنگل کا قانون ہےان سب مظالم کا ذمہ دار امریکہ ہے،
یہ شیطان بزرگ ہے،اور ان جرائم پر امریکہ کو سزا ہونی چاہیےاس ماحول میں عراقی مقاومت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ امریکہ اڈوں پر حملہ ہو، یہ بہت ہی حکیمانہ فیصلہ ہےاس کے بعد کا نکتہ
ہر آزاد اور شریف آدمی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسرائیل کی حقیقت کو سمجھ لیں،
یہ بچوں کے قاتل ہیں ،یہ کم از کم ذمہ داری ہے،
غزہ والوں کی حمایت جس طرح سے بھی ہو، یہ انسانیت کا تقاضہ ہے، اگر کوئی خاموش ہے، تو وہ اپنی انسانیت میں شک کرے، دینداروں کو دیندار ہونے میں شک کرنا چاھئیے، شریف اپنی شرافت پر شک کرے، اگر کوئی شخص خاموش رہتا ہے اس پر جو آج غزہ میں ہو رہا ہے تو یہ غیر انسانی ھے، یہ سب سے مختلف صورت حال ہے، لہذا سب اپنی ذمداری کو محسوس کریں،
دو اہداف بہت اہم ہیں
پہلا
غزہ پر مسلط جنگ کو روکنا ھے
دوسرا
حماس کو ہی بہرصورت جتانا ھے،
اس کے لئے ھمیں کام کرنا چاہیے
پہلے ہدف میں کوئی شک نہیں
دوسرے ہدف میں ہم سب کی کامیابی ہے
غزہ کی جیت سب سے پہلے فلسطین کی جیت ہے، اور اسی طرح خطے کے ملکوں کی جیت ہے،
غزہ کی جیت اردن مصر اور سوریا کی قومی جیت ہےاور اسی طرح لبنان کی،
اسرائیل اس آپریش میں شکست کھاتا ہے اور عام عوام سے بدلہ لیتا ہے
لہذا ہم سب کی ذمداری بنتی ہےکہ اس جنگ کو روکا جائے جو غزہ کو برباد کر رہا ہے
اسرائیل کا بائیکاٹ کیوں نہیں ہوتا؟
تیل کیوں بند نہیں کیا جاتا؟ خوراک کی ترسیل کیوں بند نہیں ہوتی؟
چیزیں کیوں بر آمد کی جاتی ہیں؟
غزہ والے عربوں سے کہتے ہیں فوج نہ بھیجو،
لیکن کیا رفح کراسنگ کو بھی نہیں کھول سکتے؟
تم اتنے کمزور ہوگئے؟
لیکن ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہے ہو سکتا ہے کبھی ضمیر جاگ جائے ان کا،
عراقی مقاومت اپنی ذمداری انجام دے رہی ہے
یمن کے شریف اور مجاہد عوام اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں،
جہاں تک تعلق ہے لبنان کاتعلق ہےتو ہم آٹھ اکتوبر سے جنگ کر رہے ہیں دوسرے دن سے،
دوسرے ہی دن سے ہم نے آپریشن شروع کیا
بعض لوگوں کو لگتا ہے کہ جو کچھ ان حدود میں ہو رہا ھے وہ کوئی چھوٹا موٹا آپریشن ہے، حالانکہ یہ بڑی کارروائی ہے، البتہ اس پر ھم اکتفا بھی نہیں کریں گے
ہم ٹینکوں، ڈرونز، مورچے اور فوجیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں،
حزب اللہ 8 اکتوبر سے ایک حقیقی جنگ لڑ رہی ہے جس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو اس وقت ان حدود پر موجود ہیں، اسی وجہ سے اتنی شہادتیں ہوئیں،ابھی تک ہم نے اس لڑائی سے کیا حاصل کیا ہے، جس کے بدلے میں ہم نے 57 شہید دیئے
اولا
دشمن لبنانی حدود سے دور ہوا،
تصور کریں ایک پوری فوج کو ایک محاصرہ شدہ علاقے غزہ کے لئے بلایا گیا، اور رزرو فوج بھی،
دوسرا
ہماری وجہ سے غزہ پر فوجی اعتبار سے دباو اور بوجھ کم ہوا،
کیونکہ بہت بڑی تعداد میں اسرائیلیوں کو ہم نے یہاں الجھا دیا
ہمیں کہا گیا کہ ہم ایڈوینچر کر رہے ہیں، لیکن اس ایڈوینچر کی وجہ سے بہت سی فوج یہاں الجھ گئی تیسرا اسرائیل کی آدھی بحری قوت یہاں الجھ گئی،ایک چوتھائی فضائی فوج یہاں الجھی ہوئی ہے تیسرا ہزاروں آباد کار یہاں سے بھاگنے پر مجبور ہوئے،
غزہ کے مد مقابل 58 علاقے خالی ہوئے،
چوتھا: جو کہ سب سے اہم ہےوہ یہ کہ جو لبنانی حدود پر ہو رہا ہے، اس نے صہیونی اور امریکیوں کو خوفزدہ کر دیا ہےوہ ڈر رہے ھیں کہ ہو سکتا ہے کہ یہ جنگ پھیل جائے ،اور کچھ بھی ہو سکتا ہےلہذا جنگ کے مزید پھیلنے کا یہ خوف دو چیزوں کاباعث بنتا ہےایک یہ کہ دشمن لبنان پر حملہ کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتا ہے،
یہ لوگ پہلے ایک ٹینک کی تباہی برداشت نہیں کرتے تھے، اب وہ بہت کچھ برداشت کرنےپر مجبور ھیں، کیونکہ کوئی اور چارہ نہیں،
میں اس دشمن سے کہتا ہوں اگرتم نے لبنان پر حملہ کیا تو یہ تمھاری سب سے بڑی حماقت ہوگی
غزہ میں ہونے والے مظالم ہمیں مزید قوت اور استقامت بخشتے ہیں
دوسری چیز
ہر آپریشن سے پہلے یہ پست دشمن خوب سوچے گا چاہے یہاں ہو یا غزہ میں،
ہمارا یہ آپریشن غزہ والوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان ہے یہاں ہمیں ایک اہم نکتے کی طرف توجہ کرنا چاہیے، ہمیں کہا گیا کہ اگر ان حدود میں کچھ کروگے تو امریکہ تم لوگوں کے خلاف آپریشن کرے گا، ابھی تک کہا جا رہا ہے، لیکن یہ دھمکی ہمیں اپنی ذمہ داری نبھانے سے پیچھے نہیں ہٹا سکتی
یہاں کب کچھ نیا ہوگا ؟
جب غزہ میں کوئی بڑا ایڈوینچر ہوگا تو یہاں بھی رد عمل مختلف ہوگا
دوسرا
اگر لبنان کے حوالے سے کوئی حماقت ہوئی، تو یہاں بھی کچھ نیا ہوگا
واضح کہتا ہوں سب آپشنز کھلے ہیں، اور ہم کسی بھی وقت ان آپشنز کا فیصلہ کر سکتے ہیں
لہذا سب کو تیار رہنا چاہیے امریکہ سے کہتا ہوں دھمکی سے کوئی فائدہ نہیں یہ چیزیں ہمیں نہیں ڈراتیں،
یہ بحری بیڑے ہمیں نہیں ڈرا سکتے اور ہاں ان کا بھی ہم نے بندوبست کیا ہے
امریکیو
عراق میں افغانستان میں اور دوسری جگہ میں ذلت کو یاد کرو
جنہوں نے تمہیں 1982 میں شکست دی تھی، وہ زندہ ہیں اور اب تو ان کے ساتھ ان کے بچے اور پوتے بھی کھڑےہیں، اگر خطے میں جنگ کاپھیلاو نہیں چاہتے تو غزہ پر جنگ بند کردو،کیونکہ تمہیں پتہ ہے کہ خطے کی جنگ میں تمہارے اڈوں اور فوجیوں کا
کیا حشر ہونا ہے
فلسطینیوں سے کہتا ہوں ابھی تک وہ وقت نہیں پہنچا کہ جب ان پہ آخری وار کیا جائےلیکن ان کو ہر موقع پر کاری ضرب لگنا چاہیے یہ استقامت، صبر، کامیابی، اور دشمن کو روکنے کی جنگ ہے
میں آپ سے کہتا ہوں،
اللہ کے وعدے پر یقین رکھتے ہوئے، یہ یقینی ہے کہ جیت ہماری ہے،
چاہے کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑے
سیدالقائد خامنہ ای فرماتے ہین کہ غزہ کی جیت ہوگی، انہوں نے ہمیں 2006 میں کہا تھا کہ تم لوگ جیتو گے، اور جیت کے کوئی آثار نہیں تھے، اور کہا تم لوگ خطے کی بڑی قوت بنو گے، میں فلسطینیوں سے کہتا ہوں کہ جیت تمہاری ہوگی اور عنقریب ھم اس جیت کا جشن منائیں گے

یہ بھی دیکھیں

صہیونی وحشیانہ حملوں نے مغربی تہذیب و تمدن کے چہرے سے نقاب اتار دیا،آیت اللہ سید علی خامنہ ای

تہران:بسیجیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کہا کہ طوفان …