(سید مجاہد علی)
پاکستان میں انتخابی مقابلہ سے زیادہ اقتدار حاصل کرنے کی جد و جہد کا دلچسپ مگر افسوسناک آغاز ہو چکا ہے۔ ایک طرف تاحیات نا اہل قرار دیے گئے نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں اور میڈیا مہم جوئی کے ذریعے یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جیسے وہ نہ ہوں تو ملک کو خدا نخواستہ کوئی ڈوبنے سے بچا نہیں سکتا۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے طرز عمل سے یوں لگتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اگر اس بار وزیر اعظم نہ بن سکے تو ملک و قوم کا بڑا نقصان ہو گا۔
ملکی سیاسی حالات کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے کہ مجوزہ انتخابات میں نہ تو کسی ایک پارٹی کو واضح اکثریت مل سکتی ہے اور شاید نہ ہی ایسا کوئی انتظام ملک و قوم میں پائی جانے والی بے چینی کم کرسکے گا۔ خاص طور سے تحریک انصاف کی سیاسی مقبولیت کے بارے میں کوئی اندازہ قائم کرنا ممکن نہیں ہے۔ عمران خان کی ذاتی مقبولیت کی بنیاد پر پارٹی کی سیاسی قوت کے بارے میں جو اندازے قائم کیے جا رہے ہیں یا دعوے کیے جاتے ہیں، ان پر یقین کرنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن اگر انتخابی عمل میں ان دعوؤں کو جانچنے اور اصل حقیقت سامنے لانے کا منصفانہ اور شفاف موقع فراہم نہ کیا جا سکا تو مقبولیت کے ان دعوؤں کے بطن سے ایک نیا طوفان برآمد ہونے کے امکانات کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔
سانحہ 9 مئی کے بعد تحریک انصاف کو سیاسی طور سے کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ عمل پارٹی میں پالیسی اختلافات کے نتیجے میں فطری طور سے دیکھنے میں آیا ہو لیکن چند ہی ہفتوں میں ایک پارٹی میں دو نئی پارٹیوں کی پیدا ہو گئیں۔ اور درجنوں لوگوں کو یک بیک اس بات کا القا ہونے لگا کہ عمران خان کی مہم جوئی ملک دشمنی پر مشتمل ہے اور وسیع تر قومی مفاد میں ان کا ساتھ نہیں دیا جاسکتا۔ جو لوگ اس بارے میں کسی شبہ کا شکار تھے، انہیں یا تو چالیس دن کا چلہ کاٹنا پڑا یا کچھ پراسرار سایوں نے انہیں کسی ایسے جہاں کی سیر کروائی کہ ان پر ساری حقیقت عیاں ہو گئی۔ واپسی پر گھر جانے کی بجائے یا تو وہ کسی ٹیلی ویژن اسٹیشن کے ٹاک شو میں پہنچنے لگے یا پریس کانفرنس کے ذریعے قوم کو حقیقت بتانے پر مجبور ہوئے۔ یہ ہتھکنڈے اب بھی کسی نہ کسی صورت جاری ہیں۔ خاص طور سے انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد گرفتاریوں میں تیزی آئی ہے اور ایسا کوئی اشارہ موجود نہیں ہے کہ تحریک انصاف سے ہمدردی رکھنے والے یا اس کی قیادت کرنے والے لوگوں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت کا کوئی امکان ہے۔
اس صورت حال میں اگر تحریک انصاف سانحہ 9 مئی کی وجہ سے یا عمران خان کی دیگر سیاسی غلطیوں کی وجہ سے اپنی مقبولیت اور سیاسی قوت سے محروم ہو بھی چکی ہے تو بھی لوگوں کو اس بات پر اسی وقت یقین آئے گا اگر عام انتخابات میں سب سیاسی گروہ آمنے سامنے ہوں اور سب کو مناسب طریقے سے انتخابی مہم چلانے کا حق حاصل ہو۔ اگر ایک خاص پارٹی کے لوگوں کو ٹارگٹ کیا جاتا رہے گا، اس کا لیڈر متعدد مقدمات میں جیل میں بند ہو گا اور یہ تاثر قومی کیا جا رہا ہو کہ اسے طویل سز ادے کر انتخابات سے نا اہل قرار دیا جائے گا تو ایسے انتخابات خواہ کیسے ہی ’منصفانہ‘ کیوں نہ ہو، ان کی شفافیت پر بھروسا نہیں کیا جائے گا۔ اس طرح یہ شبہ یقین میں تبدیل ہو گا کہ اسٹبلشمنٹ اپنی ہی قائم کی ہوئی ایک سیاسی پارٹی سے مایوس ہو کر اب کسی بھی قیمت پر اسے تہس نہس کرنے اور کسی بھی طرح عمران خان کو سیاسی منظر نامہ سے ہٹا دینے کا تہیہ کرچکی ہے۔ ایسی خواہش خواہ کیسی ہی ’جائز‘ کیوں نہ ہو لیکن سیاسی عمل، جمہوری روایت یا معروضی حالات میں اس پر عمل درآمد ایک مشکل سے نجات پانے کی کوشش میں کسی نئی اور بڑی مشکل میں گرفتار ہونے کے مترادف ہو گا۔
ان حالات میں تصویر کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ معاملات کو درست طریقے سے سمجھے اور ایک متوازن اور آئینی طریقے سے سیاسی رجحان کو راستہ بنانے کا موقع دیا جائے۔ ملک میں ماضی قریب کے سیاسی تجربوں سے کم از کم یہ سبق تو سیکھا ہی جاسکتا ہے کہ کسی لیڈر کو شاید جعل سازی کے ذریعے سیاسی مقبولیت کی طرف گامزن تو کیا جاسکتا ہے جیسے ایک زمانے میں نواز شریف کو لانچ کیا گیا اور پھر عمران خان کو ان کے مدمقابل کے طور پر تیار کر کے بالآخر اقتدار کی بلندی تک پہنچا دیا گیا۔ لیکن ایک مقبول لیڈر کو عوام کی نظروں سے گرانے میں طاقت ور حلقوں یا ریاستی جبر سے کام نہیں لیا جاسکتا بلکہ ان ہتھکنڈوں سے اس لیڈر کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔
دیکھا جاسکتا ہے کہ جب سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، عمران خان کو اپنے سایہ عاطفت میں لے کر ان کے اقتدار کی حفاظت کا بیڑا اٹھائے ہوئے تھے تو نواز شریف کے ایک اعلان نے ان کی مقبولیت کو پلک جھپکتے آسمان پر پہنچا دیا تھا۔ لوگوں کو لگا کہ یہی لیڈر عوام کے حق انتخاب سے انکار کرنے والے طاقت کے مراکز کو چیلنج کرنے کی صلاحیت و حوصلہ رکھتا ہے۔ لیکن جب حالات تبدیل ہونے کے بعد عمران خان کی مقبولیت سے نجات پانے کے لیے نواز شریف کو ’مسیحا‘ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو لوگوں کو محسوس ہونے لگا ہے کہ عمران خان ہی ان کا اصل لیڈر ہے کیوں کہ اس نے اس طاقت کو چیلنج کیا ہے جو ہمیشہ ملکی سیاست میں اپنی مرضی ٹھونسنے کی کوشش کرتی ہے۔
اس تجربے سے ایک ہی سبق ملتا ہے کہ عوام اپنی پسند ناپسند کا فیصلہ کسی غیرمرئی طاقت کی خوشنودی کے لیے نہیں کرتے اور نہ ہی ان کے پاس قومی مفادات کو ماپنے کا کوئی پراسرار پیمانہ ہوتا ہے۔ وہ تو صرف یہ دیکھتے ہیں کہ کون ان کے مفاد یا حق کے لیے سینہ سپر ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں جمہوری عمل اور آئینی طریقوں کے خلاف اختیار کیے گئے منفی ہتھکنڈوں کی وجہ سے عوام اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جو لیڈر طاقت کے مراکز کا ’ناپسندیدہ‘ ہو وہی عوام کا حقیقی مسیحا یا ہمدرد ہو سکتا ہے۔ یہ طرز عمل غلط یا گمراہ کن ہو سکتا ہے لیکن بار بار ایک ہی سوراخ سے ڈسے جانے والے عوام نے اب غلط یا درست کا اپنا معیار اختیار کیا ہے۔ ماضی میں مقبول لیڈروں سے نجات حاصل کرنے کے لیے چونکہ عدلیہ کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا گیا تھا، اس لیے سیاسی معاملات میں نظام انصاف کی غیر جانبداری بھی مشکوک ہو چکی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ عمران خان یا ان کے ساتھیوں کی غلط کاریوں کی سزا دلوانے کے لیے عدالتی نظام کو شفاف طریقے سے استعمال کرنے کی بجائے، اسے اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی بھونڈی کوشش کی جا رہی ہے۔ یوں عوام میں یہ تاثر قوی ہو رہا ہے کہ ان کے لیڈروں کو ’ناجائز‘ طور سے قید کر کے ان سے دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس تصویر کا دوسرا پہلو نواز شریف، آصف زرداری اور ملک کے دیگر سیاسی لیڈروں کے رویوں سے متعلق ہے۔ اس گروہ میں شامل بیشتر سیاسی لیڈروں نے مل جل کر عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور کروائی اور اتحادی حکومت قائم کرلی۔ 16 ماہ کے دورانیے میں کوئی بھی حکومت کسی بھی ملک کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کر سکتی۔ شہباز حکومت کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ شدید مالی مشکلات میں ان کی کل بھاگ دوڑ قرض حاصل کرنے تک محدود رہی۔ ایک غیر مستحکم سیاسی نظام اور غیرفعال معیشت کے حامل ملک کو قرض لینے کے لیے عالمی اداروں اور دوست ممالک کی ایسی شرائط ماننا پڑیں جن سے عوام کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ کسی سیاسی لیڈر میں چونکہ عوام کے ساتھ مالی و معاشی حقائق کے بارے میں کھل کر بات کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا لہذا اپنی مشکلوں کا سارا بوجھ سابقہ حکومت یعنی عمران خان اور تحریک انصاف پر منتقل کرنے کی کوشش کی گئی۔ جب لوگ روزمرہ مہنگائی سے نمٹ رہے ہوں اور گھریلو مصارف میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہو تو انہیں سیاسی لیڈروں کا کوئی عذر یا وضاحت سمجھ نہیں آتی۔ عام شہری کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہوتا ہے کہ اس کے مسائل کی ذمہ داری حکومت نہیں تو اور کون ہو سکتا ہے؟ یہ رویہ بھی سیاسی لیڈروں نے ہی راسخ کیا ہے۔ ایک تو ملک کا نظام تعلیم عوام میں سیاسی و معاشی شعور اجاگر نہیں کرتا۔ دوسرے مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے الزام تراشیوں کے چلن نے بھی عوام کو یہی باور کروایا ہے کہ غلط کار سیاست دان ہی ہوتے ہیں۔
اگر سب سیاسی لیڈر صورت حال کی اس سنگینی کو سمجھتے ہوئے باہمی اتفاق کا سلسلہ جاری رکھتے، تب بھی شاید بحران کی نوعیت مختلف ہوتی۔ لیکن 16 ماہ تک مل کر حکومت کرنے کے بعد یک بیک ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے کا جو سلسلہ شروع کیا گیا ہے، اس میں سیاسی پارٹیوں کا اعتبار مسلسل کم ہو رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سب سیاسی لیڈر کسی میثاق پر اتفاق کر لیں لیکن کسی جھرلو کی بدولت اقتدار ملنے کی خواہش یا ایک دوسرے کے خلاف کدورت کی وجہ سے مفاہمت کا کوئی منصوبہ ظہور پذیر ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ چہ جائیکہ مسلم لیگ (ن) و پیپلز پارٹی دیگر پارٹیوں کے علاوہ تحریک انصاف کو ایک جگہ مل بیٹھنے اور انتخابات سے پہلے کسی ضابطہ اخلاق پر متفق ہونے پر آمادہ کرتیں۔ اگرچہ افہام و تفہیم کی ذمہ داری سب سیاسی لیڈروں پر مشترکہ طور سے عائد ہوتی ہے لیکن عمران خان اور تحریک انصاف کو چونکہ دیوار سے لگایا جا رہا ہے، اس لیے یہ کام نواز شریف اور آصف زرداری کو مل کر کرنا چاہیے تھا۔ یہ دونوں لیڈر سیاسی راہداریوں کے گرم و سرد سے گزر چکے ہیں اور ملک کے اعلی ترین مناصب پر فائز رہ چکے ہیں۔
یہ دونوں اگر اپنی اپنی جگہ اقتدار کی ہوس میں ’کوئے یار‘ کے چکر لگانے کی بجائے ملک میں سیاسی اعتماد سازی کے لیے کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو انہیں وزارت عظمی کے امیدوار بننے یا بنانے کی بجائے، مل کر عمران خان کو رہا کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ یہ طے کیا جائے کہ سیاسی لیڈروں کے خلاف مقدمات پر کارروائی انتخابات کے بعد ہوتی رہے گی، فی الوقت سب کو انتخابی مہم چلانے اور خود کو عوام کے سامنے پیش کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ عمران خان کی حمایت میں کھڑے ہونے کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہو گا کہ ان کے گناہ معاف کر دیے جائیں یا ان کے ساتھ شراکت اقتدار پر اتفاق رائے کیا جائے۔ بلکہ اس طریقے سے سیاسی اعتماد سازی کا کام آسان ہو جائے گا۔ اس سے عمران خان کی بجائے نواز شریف اور آصف زرداری کا قد اونچا ہو گا۔ لیکن کیا یہ دونوں لیڈر اس سیاسی سچ کو ماننے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟بشکریہ ہم سب نیوز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔