اتوار , 10 دسمبر 2023

اسٹاک مارکیٹ بلند ترین سطح پر

پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں جمعے کو کاروباری ہفتے کے اختتام پر کے ایس ای 100انڈیکس کا قومی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ جانا ملک کے مستقبل پر سرمایہ کاروں کے اعتمادکی واضح علامت ہے۔ اسٹاک مارکیٹ میں اس تیزی کا فوری سبب پاکستان سرمایہ کاری بانڈکی کٹ آف ایلڈ میں نمایاں کمی بتایا گیا ہے جس کے باعث کے ایس ای 100 انڈیکس میں 2.08 فیصد کی شرح سے 1130 پوائنٹس کے اضافے سے 55 ہزار پوائنٹس کی حد عبور کرنے سے نیا ریکارڈ قائم ہوا، 68.42 فیصد کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت بڑھ گئی‘سرمایہ کاری مالیت میں 132 ارب 71 کروڑ 71 لاکھ روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ کاروباری حجم بھی 32.74 فیصد زیادہ رہا۔ اسٹاک مارکیٹ میں تیزی کی لہر کا ایک اور سبب آئی ایم ایف کے دوسرے جائزے کی کامیابی کے امکانات ہیں ۔ سرمایہ کاروں میں یہ گرم جوشی اس کے باوجود ہے کہ کئی ماہ سے شرح سود انتہائی بلند ہے نیز بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی پے در پے اضافوں کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم موجودہ کمپنیوں میں سرمایہ کاری بڑھنے کے ساتھ ساتھ نئی صنعتوں کا قیام بھی اشد ضروری ہے کیونکہ روزگار کے مواقع میں خاطر خواہ اضافہ اس کے بغیر ممکن نہیں ۔

روپے کی قدر میں بہتری کے سلسلے کو ریورس گیئر لگ جانا بھی لائق توجہ معاملہ ہے جبکہ توقع ظاہر کی جارہی تھی کہ ڈالر کی قیمت 250 روپے سے بھی نیچے آجائے گی۔ روپے کی قدر بڑھنے سے ایک مدت بعد روزمرہ ضرورت کی اشیاء کی مہنگائی کا زورٹوٹنے لگا تھا لیکن فی الوقت کیفیت یہ ہے کہ اکتوبر میں تقریباً275 روپے تک جاپہنچنے والا ڈالر آج 285 روپے سے بھی اوپر جا پہنچا ہے۔اس صورت حال کی وجہ درآمدات کیلئے ایل سیز کا کھلنا بتایا جاتا ہے اور توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک میں فرق ختم یا کم ہوجانے کی وجہ سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بینکوں کے ذریعے ترسیلات زر میں اضافہ ہوگا جس کے نتیجے میں ڈالر کی طلب اور رسد میں فرق کم ہوجائے گا اور روپے کی قدر میں ازسرنو بہتری واقع ہونا شروع ہوجائے گی۔ ستمبر کے مقابلے میں اکتوبر کی ترسیلات زر میں 11.5 فی صد اضافہ ہوا بھی ہے اور آئندہ مزید بہتری کے امکانات روشن ہیں۔

اس کے باوجود حوالہ ہنڈی اور اسمگلنگ کے مکمل خاتمے کے اقدامات کو پورے شدومد سے جاری رکھا جانا چاہیے کیونکہ ان ناجائز دھندوں سے بے اندازہ مالی مفادات حاصل کرنے والے جرائم پیشہ عناصر بالعموم کچھ عرصے کیلئے دبک کر متعلقہ حکام اور اداروں کی مستعدی میں کمی واقع ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور پھر حالات کو نسبتاً سازگار دیکھ کر از سرنو سرگرم ہوجاتے ہیں۔ یہ اقدامات پورے اہتمام سے جاری نہ رکھے گئے تو جرائم پیشہ عناصر کے حوصلے بلند ہوں گے اور معیشت میں بہتری اور مہنگائی میں کمی کے رجحان کو دھچکا پہنچے گا۔ معیشت کے حوالے سے ایک رپورٹ سے یہ نہایت قابل توجہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ملک کی کل دولت کا 22 فیصد رکھنے والے ایک فیصد امیر افراد کو ایف بی آر پوری طرح ٹیکس نیٹ میں لانے میں اب تک ناکام ہے۔ اربوں روپے کے غیر واضح اثاثوں کے مالک ان ایک فی صد لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے نہایت چالاکی سے اپنی دولت اور اثاثے دوسروں کے نام کر رکھے ہیںاور وہ 2017 میں بے نامی قانون کے نفاذ، اینٹی بے نامی انیشی ایٹو کے قیام اور 2019 سے بے نامی ایڈجوڈیکیٹنگ اتھارٹی کے فعال ہونے کے باوجود ٹیکس چوری میں کامیاب ہیں۔ 22 فی صد دولت رکھنے والے یہ افراد اگر پورا ٹیکس دیں تو 4فی صد دولت رکھنے والی 50 فیصد اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والی 40 فیصد آبادی کی خوشحالی کیلئے یقینا بڑے نتیجہ خیز اقدامات کیے جاسکتے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ ان تمام دولت مند لوگوں کو جلدازجلد ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔بشکریہ جنگ نیوز

 

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …