(سید مجاہد علی)
سعودی دارالحکومت ریاض میں عرب و اسلامی ممالک کی کانفرنس نے غزہ پر اسرائیلی بمباری روکنے اور غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اجلاس میں اس موقف کو مسترد کیا گیا ہے کہ یہ جنگ اسرائیل کے دفاع
کے لیے ضروری ہے۔ اگرچہ اجلاس کا متفقہ اعلامیہ جاری ہوا ہے لیکن 57 ممالک پر مشتمل اس اجتماع میں حکمت عملی کے بارے میں واضح اختلاف بھی دیکھنے میں آیا۔
ایک روزہ کانفرنس کے اختتام پر جاری ہونے والے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کا محاصرہ ختم کر کے انسانی امداد کی فراہمی بحال کی جائے۔ اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات روکنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ مشترکہ اعلامیہ میں اسرائیلی جارحیت، جنگی جرائم، غیر انسانی قتل عام کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ یہ اعلامیہ تمام مسلمان و عرب لیڈروں کے درمیان مفاہمت کے نتیجے میں سامنے آیا کیوں کہ سب اسرائیل اور اس کے حامی ممالک کے خلاف سخت جوابی اقدامات کرنے پر متفق نہیں تھے۔ قبل ازیں عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس علیحدہ علیحدہ منعقد ہونا تھے لیکن عرب لیگ ممالک میں حکمت عملی پر شدید اختلاف تھا۔ بعض ممالک کا مطالبہ تھا کہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے والے ممالک انہیں ختم کر دیں اور اسرائیل کے علاوہ اس کی حمایت کرنے والے ممالک کو تیل کی سپلائی بند کی جائے۔ البتہ متحدہ عرب امارات، بحرین اور بعض دیگر عرب ممالک اس مطالبے کو ماننے پر آمادہ نہیں تھے۔ واضح رہے متحدہ عرب امارات اور بحرین نے 2020 میں اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کیے تھے۔
عرب لیگ اور او آئی سی کے مشترکہ اجلاس میں کی جانے والی تقریروں میں بھی اسرائیل کے حوالے سے پالیسی کا اختلاف نمایاں تھا۔ ایران، اسرائیل کو دہشت گرد ریاست قرار دینے کا مطالبہ کر رہا تھا اور شام کے صدر بشار الاسد کا کہنا تھا کہ مسلمان ممالک اگر جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ کی کوئی حکمت عملی تیار نہیں کرتے تو ایسے مطالبے کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ البتہ بعض مسلمان ممالک مذمت اور جنگ بندی سے بڑھ کر کوئی اقدام کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔
قطر کے امیر تمیم بن الثانی نے مستقل جنگ بندی کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک حماس کی طرف سے 7 اکتوبر کو یرغمال بنائے گئے اسرائیلی اور دیگر ممالک کے شہریوں کی رہائی کے لیے مذاکرات جاری رکھے گا۔ خیال رہے کہ ان یرغمالیوں سے متعلق مذاکرات اور رہائی سے متعلق دوحا کا کردار اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ قطر کے امیر نے اسرائیل کے عام شہریوں کو نشانہ بنانے کی بھی مذمت کی اور ان الزامات کو جھوٹا قرار دیا کہ حماس نے ہسپتالوں کے نیچے سرنگیں بنا رکھی ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس عام شہریوں کو ڈھال بنا رہا ہے اور ہسپتالوں اور صحت مراکز کے نیچے اور قریب سرنگیں بنائی ہوئی ہیں۔ قطر کے امیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ عرب اور مسلم ممالک اسرائیل کے خلاف محض مذمتی قرارداد جاری کرنے پر اکتفا نہ کریں بلکہ اسرائیل کو غزہ میں مزید کارروائیوں سے باز رکھنے کے لیے دباؤ ڈالیں۔ البتہ انہوں نے اس حوالے سے کوئی ٹھوس تجویز نہیں دی کہ مسلمان ممالک کیسے اسرائیل کے جنگی عزائم کو روکنے کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ خاص طور سے جب تمام عرب و مسلمان ممالک میں اس مسئلہ پر اتفاق رائے بھی نہ ہو۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اسرائیل کو ایک بگڑا ہوا بچہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ نا انصافی کے سامنے خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو فلسطینیوں کو معاوضہ ادا کرنے کا پابند بنایا جائے۔ اور دنیا اسے جنگی جرائم کا جوابدہ ٹھہرائے۔ اردن کے شاہ حسین نے اسے خونریز جنگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے فوری طور سے روکنا ہو گا ورنہ پورا خطہ اس کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے کہا کہ فلسطینی عوام کی نسل کشی جاری ہے۔ انہوں نے فلسطین کے لیے عالمی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔
پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ علیحدہ فلسطینی ریاست کا قیام ہی مسئلے کا واحد حل ہے۔ سلامتی کونسل پر غزہ میں قتل عام رکوانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام فوری طور سے روکا جائے۔ نا انصافی اور معصوم شہریوں کا قتل عام مزید تنازعات جنم دے گا۔ غزہ پر اسرائیلی بمباری سے ہسپتال، اسکول، یو این دفاتر بھی محفوظ نہ رہے۔ غزہ میں اسرائیلی مظالم کی پرزور مذمت کرتا ہوں۔ پاکستان 1967 کی سرحدوں کے مطابق ریاست فلسطین کے قیام کا حامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی افواج فلسطین میں بین الاقوامی انسانی قوانین اور انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہی ہیں۔ نہتے فلسطینیوں پر طاقت کا استعمال جنگی جرم اور انسانیت کے خلاف اقدام ہے۔ عالمی برادری ان جرائم پر اسرائیل کا محاسبہ کرے۔ جنگ بند کی جائے اور غزہ کے شہریوں کو امداد پہنچائی جائے۔
اسلامی ممالک کے لیڈر ایک ایسے موقع پر زبانی لفاظی کے جوہر دکھا رہے تھے جبکہ غزہ میں جاں بحق ہونے والے لوگوں کی تعداد 11 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے اور اسرائیلی فوج نے غزہ شہر میں سب سے بڑے ہسپتال الشفا کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ہسپتال کے لیے ایندھن کی سپلائی بند ہونے سے ایمرجنسی میں موجود متعدد مریض جاں بحق ہو گئے ہیں۔ خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق الشفا اسپتال کے ڈائریکٹر محمد ابو سیلمیا نے گولیوں اور دھماکوں کی آواز کے بیچ فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ اسپتال میں بجلی نہیں ہے۔ طبی آلات بند ہو گئے ہیں۔ انتہائی نگہداشت میں موجود مریض مرنا شروع ہو گئے ہیں۔ ان میں ایک قبل از وقت پیدا ہونے والا بچہ بھی شامل ہے۔
اس کے باوجود 57 مسلمان لیڈروں کا ایک جگہ جمع ہو کر غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت سے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو اسلامی ممالک میں پائی جانے والی ناراضی اور بے چینی کا ضرور احساس ہو گا۔ غزہ کی جنگ اس ہیجان میں اضافہ کرے گی جس کا اظہار مختلف علاقائی تنازعات کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔ اس لیے اسلامی و عرب ممالک کے اجلاس سے اگرچہ اسرائیل کو فوری طور سے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوگی لیکن اس کی پشت پناہ قوتیں ضرور دباؤ محسوس کریں گی۔ ریاض میں منعقد ہونے والے اجلاس کی یہ بات بھی نوٹ کی جائے گی کہ ایران کے صدر ابراہیم ریئسی 11 سال میں سعودی عرب آنے والے پہلے ایرانی صدر ہیں۔ انہوں نے اگرچہ اسرائیلی فوج کو دہشت گرد گروہ قرار دینے کا ایسا مطالبہ کیا جو بیشتر عرب لیڈروں کے لیے ’گھناؤنے خواب‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے جنگ کو پھیلانے کی ذمہ داری امریکہ پر عائد کی۔ تاہم ایرانی صدر کا اسلامی ممالک کے لیڈروں کے ساتھ سعودی دارالحکومت میں شریک ہونا بجائے خود امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے علاقے میں متوازن پالیسی اختیار کرنے کا بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔ اسی طرح شام کے صدر بشار الاسد بھی اس کانفرنس میں شریک تھے۔ یوں امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے والے طاقت ور عرب ممالک کے لیڈر امریکہ مخالف مسلمان ملکوں کے لیڈروں کے ساتھ بیٹھنے پر مجبور تھے۔
یہ اتفاق محض اسرائیلی بمباری پر عرب لیڈروں کی پریشانی اور احتجاج کا مظہر نہیں ہے بلکہ تمام عرب ممالک میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مضبوط ہونے والی رائے عامہ کی صورت حال میں یہ لیڈر خود اپنے اقتدار کو محفوظ رکھنے کے لیے اسرائیل اور بالواسطہ طور سے امریکہ کی مذمت کرنے پر مجبور ہیں۔ عرب و اسلامی ممالک کی رائے عامہ کے علاوہ مغربی ممالک میں تسلسل سے ہونے والے مظاہرے بھی واضح کرتے ہیں کہ عام طور سے غیر جمہوری طریقے سے حکومتوں پر قابض مسلمان لیڈروں ہی کو رائے عامہ کے دباؤ کا سامنا نہیں ہے بلکہ جمہوری و انسانی حقوق کو اپنی پالیسی کی بنیاد بتانے والے ملکوں کے لیڈروں کو بھی عوام کی ناراضی اور احتجاج کا سامنا ہے۔ فرانس اور برطانیہ جیسے ممالک میں بعض حکومتی لیڈر اگرچہ حماس کی دہشت گردی کے نام پر اسرائیل کی حمایت کا ’اخلاقی‘ جواز تلاش کرتے ہوئے مظاہروں کو تشدد کے فروغ کا سبب قرار دینے کی کوشش بھی کرچکے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ غزہ میں روزانہ بچے، خواتین اور بے کس و مظلوم انسانوں کو شدید بمباری کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پچیس لاکھ لوگوں کو بنیادی ضرورتوں سے محروم رکھا گیا اور ان کی امداد کے تمام راستے بند ہیں۔ جوں جوں اس جبر و ظلم میں اضافہ ہو رہا ہے، مسلمان لیڈروں کی بے بسی، مغربی ممالک کی بے چارگی اور عوامی احتجاج میں اضافہ ہو گا۔ یہی دباؤ بالآخر اسرائیلی جارحیت کے سامنے بند باندھنے میں کامیاب ہو گا۔
مغربی لیڈر اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کے نتیجہ میں دنیا اور اپنے عوام کے سامنے اپنی ساکھ کھو رہے ہیں۔ ان کے بیان کردہ اصول اور انسانیت کے دعوے، اسرائیل کی جارحیت کے سامنے بے بس ہو کر رہ جاتے ہیں۔ لیکن امن کا خواہش مند دنیا کا ایک شہری خواہ وہ امریکہ میں رہتا ہو یا سعودی عرب اور کسی دوسرے ملک میں، وہ روزانہ کی بنیاد پر نہتے لوگوں پر ایک طاقت ور فوج کی دہشت گردی سے ہراساں ہے۔ اس کی یہ بے بسی کسی نہ کسی صورت میں ظاہر ہوگی۔ ہر ہوشمند لیڈر کو اس طوفان سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے جو دنیا کے امن پسند باشندوں کی خاموشی برپا کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غزہ کے خلاف اسرائیلی جنگ جوئی رکوانا صرف عرب یا مسلمان لیڈروں کی سیاست کے لیے ہی ضروری نہیں ہے بلکہ مغربی ممالک کے سب لیڈروں کو بھی یہ راستہ اختیار کرنا پڑے گا، ورنہ جمہوریت و انسانیت کے نام نہاد دعوؤں پر عوام کا رہا سہا اعتماد بھی ختم ہو جائے گا۔
یہاں یہ کہنا بھی اہم ہو گا کہ اگرچہ غزہ میں جنگ بندی اور اسرائیلی محاصرہ فوری طور سے ختم کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ مقصد حاصل کرنے کے ساتھ ہی مسلمان لیڈروں کو شدت پسند گروہوں کے خاتمہ کے لیے مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔ خاص طور سے ایران نے نام نہاد ’سعودی خطرے‘ سے نمٹنے کے لیے متعدد عرب ملکوں میں جو مسلح ملیشیا جتھے قائم کیے ہوئے ہیں، انہیں کمزور کرنا اور کسی منظم طاقت میں تبدیل کرنا ضروری ہو گا۔ البتہ یہ مقصد اسی وقت حاصل ہو سکے گا جب اسرائیل اور ان کے حامی وہ عوامل ختم کرنے پر راضی ہوں جن کی وجہ سے فلسطینیوں یا مسلمانوں میں شدت پسندی فروغ پاتی ہے۔ اگر فلسطینیوں کے حقوق سے انکار کیا جاتا رہے گا اور نا انصافی کا دور دورہ ہو گا تو حماس جیسے گروہ مسلسل عوام کی تائید حاصل کرتے رہیں گے۔ کیوں کہ عام شہریوں کو بہر صورت ہلاکت کا سامنا ہے۔ ایسے میں وہ حماس جیسے گروہوں کو مسیحا سمجھنے کی غلطی کرتے رہیں گے۔بشکریہ ہم سب نیوز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔