(سید مجاہد علی)
پاکستانی سینیٹ کی ایک قرار داد میں فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمات کی سماعت سے متعلق سپریم کورٹ کے 24 اکتوبر کے حکم کو مسترد کرتے ہوئے اس پر نظر ثانی کی اپیل کی گئی ہے۔ قرار داد کے مطابق سپریم کورٹ کا زیر بحث فیصلہ قومی سکیورٹی کے میں خلل ڈالے گا اور عدالت نے دہشت گردی کے خلاف شہدا کی قربانیوں کو نظر انداز کیا ہے۔
ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلہ کے خلاف سینیٹ میں قرارداد کی منظوری کسی بھی قانونی یا جمہوری روایت کے برعکس ہے۔ اگر ملکی عدالتوں کو پارلیمنٹ کے کام میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے تو ایوان بالا کو بھی یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ سپریم کورٹ میں ہونے والے فیصلہ کا سیاسی بنیادوں پر جائزہ لے، اور ججوں کی رائے کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جائے۔ یہ طریقہ ملک میں اداروں کے درمیان تصادم میں اضافہ کرے گا اور افتراق و انتشار میں مزید اضافہ ہو گا۔ اگرچہ سینیٹ کی اکثریت نے محض ایک قرار داد کے ذریعے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر اظہار خیال کیا ہے لیکن واضح ہونا چاہیے کہ سینیٹ یا کسی دوسرے پارلیمانی فورم کو ملکی عدالتوں کے فیصلوں کو زیر بحث لانے یا انہیں ’مسترد‘ کرنے کا حق نہیں دیا جاسکتا۔ پارلیمنٹ اگر کسی عدالتی فیصلہ سے مطمئن نہ ہو تو وہ اپنی صوابدید کے مطابق قانون سازی کر سکتی ہے لیکن قرارداد کے ذریعے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو مسترد کرنے کا طریقہ ناقابل قبول اور افسوسناک ہے۔
سینیٹ یا کسی دوسرے منتخب فورم کی منظور کی ہوئی کسی ایسی قرار داد کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی بلکہ یہ کسی ایوان کی جانب سے ایک مخصوص معاملہ پر رائے کا اظہار ہوتا ہے۔ ماضی میں سینیٹ یا قومی اسمبلی بلکہ صوبائی اسمبلیوں سے بھی ایسی قراردادیں منظور ہوتی رہی ہیں جو ایک خاص ماحول میں عوام کے جذبات کی ترجمانی کرنے یا ارکان اسمبلی کی مخالفانہ رائے سامنے لانے کے لیے منظور ہوتی رہی ہیں لیکن ان کی حیثیت کاغذ کے ایک ٹکڑے سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اس حوالے سے بھی سینیٹ جیسے معتبر ادارے کو غیر ضروری طور سے کسی قرار داد کے ذریعے رائے ظاہر کرنے کی بجائے، معاملات کی درستی کے لیے کوئی متبادل طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ تاہم یہ ایک عمومی مشورہ ہے لیکن جب سینیٹ ملک کی سپریم کورٹ کے ایک مخصوص فیصلہ کو زیر بحث لاتی ہے تو ایسی قرارداد ملکی عدالتی نظام کو بے اعتبار کرنے کا باعث بنتی ہے۔ سینیٹ کے ارکان اگرچہ عوام کے نمائندے ہیں لیکن انہیں ملکی عدالتوں کے بارے میں مخصوص سیاسی پس منظر میں قرار داد منظور کر کے پورے نظام کے لیے خطرہ نہیں بننا چاہیے۔ واضح رہے عدالتیں ہی اس وقت عام آدمی کو انصاف فراہم کرنے کا واحد فورم ہیں۔ اگر سینیٹ کسی قرار داد کے ذریعے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرے گی تو اس سے ملک میں عوامی حقوق کے تحفظ اور عدالتوں کی خود مختاری کا مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ ایک جمہوری پارلیمانی ادارے کا یہ طریقہ افسوسناک بھی ہے اور اس میں مسلمہ جمہوری روایات اور انسانی اصولوں کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے۔
پاکستانی سینیٹ نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمات کی سماعت کے خلاف فیصلے کو قومی سکیورٹی اور شہدا کی قربانیوں کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلہ سے ملک میں تخریب کار اور ریاست دشمن عناصر کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ سوموار کو اکثریت سے منظور کی گئی قرار داد میں فوجی عدالتوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ بحث کے دوران پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی اور جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے اس قرار داد کی مخالفت کی۔ لیکن اس اختلاف کو خاطر میں نہیں لایا گیا اور اکثریت نے قرار داد منظور کرلی۔
24 اکتوبر کو جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے عام شہریوں کے مقدمات کی فوجی عدالتوں میں سماعت کو خلاف آئین قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا اور آرمی ایکٹ کی متعلقہ شق کو بھی غیر آئینی قرار دیا تھا۔ بنچ میں جسٹس منیب الرحمان، جسٹس یحیی آفریدی، سید مظہر علی اختر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل تھے۔ یہ حکم چار ایک کی اکثریت سے جاری کیا گیا تھا۔ البتہ بنچ نے متفقہ طور سے قرار دیا تھا کہ سانحہ 9 مئی میں ملوث لوگوں کے خلاف مقدمے عام عدالتوں میں چلائے جائیں۔ یہ فیصلہ سامنے آنے کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا تھا کہ حکومت اس فیصلہ کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کرے گی۔ یہ اپیل تو دائر نہیں کی گئی لیکن آج سینیٹ نے اس فیصلہ کے خلاف قرار داد منظور کرلی۔ یہ اقدام عدالتی کارروائی میں مداخلت کے مترادف ہے کیوں کہ سینیٹ کی قرارداد میں صرف ایک فیصلہ پر ہی اظہار خیال نہیں کیا گیا بلکہ سپریم کورٹ کو یہ فیصلہ تبدیل کرنے کا مشورہ بھی دیا گیا ہے۔
سینیٹر دلاور خان نے آج سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سینیٹ میں قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ بادی النظر میں سپریم کورٹ کا فیصلہ قانون کو از سر نو تحریر کرنے اور پارلیمنٹ کے اختیارات میں مداخلت کے مترادف ہے۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ ’جن شہریوں نے مسلح افواج کے خلاف کارروائی میں حصہ لیا ہو، ان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانا مناسب طریقہ ہے‘ ۔ پارلیمنٹ کے حق قانون سازی کا علم بلند کرتے ہوئے البتہ قرارداد کے محرک یا اس کے متن میں یہ لحاظ نہیں کیا گیا کہ اگر سپریم کورٹ کو پارلیمان کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے تو پارلیمنٹ کو بھی سپریم کورٹ کے طریقہ کار اور فیصلوں کے طریقہ کو زیر بحث لانے سے گریز کرنا چاہیے۔ سینیٹ اس وقت ملک کی نامکمل پارلیمنٹ کے ایک حصے کے طور پر کام کر رہی ہے۔ اسے کوئی قانون بنانے اور اسے نافذ کرنے کا ’حق‘ بھی حاصل نہیں ہے کیوں کہ ملک کی قومی اسمبلی تحلیل ہو چکی ہے اور نئی اسمبلی فروری میں انتخابات کے بعد ہی معرض وجود میں آئے گی۔ ایسی صورت حال میں جب سینیٹ کوئی قانون ہی نہیں بنا سکتی، تو اسے سپریم کورٹ کے اختیار کو چیلنج کرتے ہوئے احتیاط سے کام لینا چاہیے تھا۔
قرار داد کے متن میں کہا گیا ہے کہ ’ملکی آئین کی حدود میں رہتے ہوئے ریاست دشمن سرگرمیوں اور تشدد میں ملوث عناصر کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی سے ہی تشدد کا راستہ روکا جاسکتا ہے‘ ۔ قرار داد میں شہدا کے ان تمام خاندانوں سے اظہار یک جہتی کیا گیا جنہوں نے قرار داد کے الفاظ میں عدالتی فیصلہ کی وجہ سے ’احساس عدم تحفظ و دھوکہ دہی کی کیفیت‘ محسوس کی ہے۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ ’ایسے لوگوں کی اس تشویش کی تائید کی جاتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ فوجی عدالتوں میں کارروائی نہ کرنے سے دہشت گرد عناصر کی حوصلہ افزائی ہوگی کیوں کہ عام عدالتوں میں کڑی سزائیں نہیں دی جا سکیں گی۔ قرارداد میں نوٹ کیا گیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ سے دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہونے والوں کی قربانیوں کو نظر انداز کیا گیا ہے‘ ۔
’فوجی عدالتوں نے ملک میں دہشت گردی کی روک تھام میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے میں شہدا کے جذبے کو نظر انداز کر کے دہشت گردوں، ریاست دشمن عناصر، غیرملکی ایجنٹوں اور جاسوسوں کے خلاف سول عدالتوں میں مقدمے چلانے کا حکم دے کر نرم رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس پہلو پر غور نہیں کیا کہ موجودہ طریقہ کار میں فوجی عدالتیں جابرانہ نہیں بلکہ مناسب طریقہ کار کے تحت کام کرتی ہیں۔ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق بھی دیا گیا ہے لیکن سپریم کورٹ کے حکم میں اسے بھی نظر انداز کر دیا گیا۔ آرمی ایکٹ کے تحت قانونی کارروائی سے آئین میں دیے گئے فئیر ٹرائیل کا استحقاق متاثر نہیں ہوتا‘ ۔
قرارداد میں 9 مئی کو ملکی تاریخ کا سیاہ دن قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس روز مسلح افواج کے خلاف ایسی ریاست دشمن حرکتیں دیکھنے میں آئیں جن کا تصور کبھی پاکستان کے دشمنوں نے بھی نہیں کیا تھا۔ سانحہ 9 مئی کے ملزموں نے دفاعی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں کو نشانہ بنایا۔ یہ لوگ کسی رحم یا رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ انہیں سخت ترین سزائیں ملنی چاہئیں۔ قرار داد میں واضح کیا گیا ہے کہ سیکشن 2 ( 1 ) ڈی 1967 سے آرمی ایکٹ کا حصہ رہی ہے اور اس شق کے تحت ماضی میں شہریوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں کارروائی ہوتی رہی ہے اور ان سزاؤں پر عمل درآمد بھی کیا جاتا رہا ہے۔ قرار داد میں سوال کیا گیا کہ ’سپریم کورٹ نے ماضی میں فوجی عدالتوں میں مقدمے چلانے کو درست قرار دیا تھا۔ ماضی کے عدالتی فیصلوں کے برعکس حالیہ فیصلہ متفقہ بھی نہیں ہے۔ اس میں قانونی سقم ہیں لہذا اس فیصلہ پر اس وقت تک عمل نہیں ہونا چاہیے جب تک لارجر بنچ اس پر کوئی فیصلہ صادر نہیں کرتا‘ ۔
سینیٹ کی قرار داد کے مطابق فوجی عدالتوں کا دائرہ کار ختم کرنے کا اقدام ’تخریب کاروں اور دہشت گردی و ریاست دشمن سرگرمیوں کے معاونین کو سہولت فراہم کرنے کے مترادف ہے‘ ۔ قرار داد کے مطابق سینیٹ سپریم کورٹ سے اپیل کرتی ہے کہ اس فیصلہ پر نظر ثانی کی جائے اور عدالتی احکامات کو ملکی سکیورٹی ضروریات اور شہدا کی قربانیوں سے مماثل کیا جائے۔
حیرت ہے کہ ملکی پارلیمانی نظام کا ایک ادارہ شہریوں کو فوجی عدالتوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے لیے دلیل دے رہا ہے لیکن شہریوں کے بنیادی حقوق اور انہیں مناسب قانونی تحفظ فراہم کرنے کی بات نہیں کرتا۔ نگران حکومت کے پاس سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل کا حق ہے۔ اس حق کو استعمال کرنے سے پہلے سینیٹ سے قرار داد کی صورت میں اعانت حاصل کرنے کا ایک ہی مقصد ہے کہ ملک کی اعلی ترین عدالت کو ان عناصر کی بات ماننے پر مجبور کیا جائے جو سانحہ 9 مئی کے نام پر ایک خاص سیاسی سوچ کے حامل افراد کو سخت ترین سزائیں دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس لیے یہ مقدمات فوجی عدالتوں کے حوالے کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ شکایت کنندہ کو ہی ان لوگوں کو سزا دینے کا حق دے دیا جائے جن کے خلاف ایک خاص الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ اب سینیٹ نے غیر مدلل رویہ سے عوامی خواہشات اور عام شہریوں کے حقوق کے خلاف اقدام کی وکالت کی ہے۔ یوں ملکی سیاسی و پارلیمانی تاریخ میں ایک افسوسناک باب کا اضافہ کیا گیا ہے۔بشکریہ ہم سب نیوز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔