(تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی)
غزہ اور مغربی کنارے کے مظلوم فلسطینی عوام کے خلاف غاصب صیہونی رژیم کی جارحیت کو پانچ ہفتے مکمل ہو چکے ہیں لیکن اب تک وہ اپنے بیان کردہ "اصلی مقصد” کے قریب نہیں ہوا ہے۔ اسرائیل نے جنگ کا جو مقصد ظاہر کیا تھا وہ نہ تو غزہ کے باسیوں کا قتل عام تھا اور نہ ہی غزہ میں فوج داخل کرنا تھا بلکہ وہ غزہ سے اسلامی مزاحمتی گروہوں خاص طور پر حماس کا مکمل خاتمہ تھا۔ اس مقصد میں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے بھی اسرائیل کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا اور آج تک ان مغربی ممالک سے وسیع پیمانے پر فوجی سازوسامان جہازوں کے ذریعے اسرائیل بھجوایا جا رہا ہے۔ مغربی ممالک نے اب تک غزہ میں جنگ بندی کی بھی شدید مخالفت کی ہے جو ایک طرح سے اسرائیل کا ساتھ دینے کی خاطر ہے۔ اس بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
1)۔ غزہ کو اسلامی مزاحمت سے عاری کرنا ایک بین الاقوامی اور علاقائی ہدف ہے جس کا تعین طوفان الاقصی آپریشن سے بہت عرصہ پہلے کیا جا چکا تھا۔ نیتن یاہو حکومتی ذرائع سے ایک دستاویز فاش ہوئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی حکام عرب ممالک سے تعلقات معمول پر لانے میں اسلامی مزاحمت کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ اس سے نمٹنے کیلئے انہوں نے تین قسم کی حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک مغربی ادارے کے انتظامی ڈھانچے جیسا ڈھانچہ غزہ میں تشکیل دینا جو اسرائیلی فوج اور فلسطین اتھارٹی کی مشترکہ منیجمنٹ پر مشتمل ہو اور اس کے نتیجے میں اسرائیل کی فوجی یونٹس غزہ میں حاضر رہیں۔ دوسرا مختصر مدت کیلئے غزہ پر فوجی قبضہ برقرار کرنا اور اس کے بعد اسے فلسطین اتھارٹی کے سپرد کر دینا۔ تیسرا غزہ پر فوجی قبضہ کر کے حماس کو کچل دینا اور اسے اقوام متحدہ کی نظارت میں مصر اور اردن کی مشترکہ کمیٹی کے سپرد کر دینا۔
طوفان الاقصی کے عظیم آپریشن کے بعد صیہونی فوج ابتدا میں پہلی حکمت عملی کے تحت غزہ پر حملہ ور ہوئی لہذا صیہونی حکمرانوں نے حماس کو مکمل طور پر نابود کرنے کا عندیہ دیا۔ صیہونی رژیم نے شدید بمباری کے ذریعے غزہ میں انفرااسٹرکچر تباہ کر کے اس علاقے کو ناقابل سکونت بنانے کی کوشش کی تاکہ فلسطینی عوام خود ہی غزہ چھوڑ کر چلے جائیں اور وہاں اسرائیل کا مکمل قبضہ ہو جائے۔ اس وقت غزہ پر اسرائیلی زمینی حملے کو دو ہفتے گزر چکے ہیں لیکن وہاں سے فلسطینی عوام کے نقل مکانی کر جانے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ اس دوران امریکی، یورپی اور بعض علاقائی حکام نے صیہونی رژیم کو یہ سمجھانے کی کوشش کی یہ منصوبہ قابل عمل نہیں ہے۔ لہذا اب صیہونی حکمرانوں نے دوسری حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
2)۔ دوسری حکمت عملی کے تحت امریکی، یورپی اور بعض علاقائی عرب حکومتیں غزہ میں اسلامی مزاحمت کو سیاسی طور پر بے دخل کرنے کیلئے اسرائیل کا ساتھ دینے میں مصروف ہیں۔ اس حکمت عملی کی روشنی میں وہ غزہ پر فلسطین اتھارٹی کو دوبارہ برسراقتدار لانا چاہتے ہیں۔ سی آئی اے اور موساد کے سربراہان نے چند روز پہلے قطر کے حکام سے ملاقات کی ہے اور اس بارے میں بات چیت کی ہے۔ اس حکمت عملی میں بھی بہت سی رکاوٹیں موجود ہیں۔ سب سے پہلی رکاوٹ خود غزہ کے عوام ہیں۔ کیونکہ غزہ میں فلسطینی مجاہدین اور عوام کو ایکدوسرے سے علیحدہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ مزید برآں، فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس غزہ میں شدید منفور شخصیت ہیں اور عوام انہیں قبول کرنے پر تیار نہیں۔ خود محمود عباس نے بھی اس حکمت عملی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور غزہ پر دوبارہ حکومت کرنے میں ہچکچاہٹ ظاہر کی ہے۔
3)۔ غزہ میں اسرائیلی فوج اور اسلامی مزاحمت میں زمینی جنگ کا ابھی آغاز ہی ہوا ہے اور وہ آدھے میں بھی نہیں پہنچی لہذا مغربی اور عرب ممالک کے درمیان سیاسی مذاکرات کے ذریعے اس کی قسمت کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ مغرب کی جانب سے اسرائیل کو دھڑا دھڑ اسلحہ کی فراہمی اور خطے میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کی جانب سے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف اقدامات کی شدت میں آنے والی تیزی سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں جنگ کی شدت میں تیزی آنے کے ساتھ ساتھ مزید وسعت بھی آئے گی۔ ایسی صورت میں سیاسی مذاکرات زیادہ موثر واقع نہیں ہو سکیں گے۔ لہذا آئندہ ایک یا دو ہفتے کے دوران دونوں جانب سے اقدامات کی نوعیت فیصلہ کن ثابت ہو گی۔ اگر اسلامی مزاحمت گذشتہ دو ہفتے کی طرح آئندہ ایک یا دو ہفتوں میں بھی اسرائیلی فوج کو غزہ میں داخل ہونے سے روکنے میں کامیاب ہو گئی تو اس کی کامیابی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
4)۔ اب تک غزہ کے میدان جنگ میں اسلامی مزاحمت فاتح قوت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ البتہ اسرائیل بھی 11 ہزار بیگناہ فلسطینی شہریوں کی شہادت اور 27 ہزار زخمیوں کی بنیاد پر خود کو فاتح ظاہر کر سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاریخ میں کبھی بھی جنگی جرائم کو میدان جنگ میں فتح کا نام نہیں دیا گیا۔ اسلامی مزاحمت کی جانب سے اب تک مقبوضہ فلسطین کے اندر تک راکٹ فائر کئے جانا اور ہر روز اسرائیلی ٹینک اور دیگر فوجی گاڑیاں تباہ کرنا بذات خود اس کی کامیابی کا واضح ثبوت ہے۔ یہ سب کچھ ایسے وقت ہو رہا ہے جب اسلامی مزاحمت شدید محاصرے میں ہے اور اسرائیل امریکہ اور مغربی ممالک سے دھڑا دھڑ ممنوعہ ہتھیاروں سمیت بھاری اسلحہ وصول کر رہا ہے۔ لہذا فاتح وہ ہے جو میدان جنگ میں فاتح ہے نہ کہ عام شہریوں کے قتل عام میں دوسرے سے آگے ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔