ہفتہ , 2 دسمبر 2023

تشدد کا چلن ختم کرنے کے لئے ماضی کی پالیسی تبدیل کرنا ہوگی

(سید مجاہد علی)

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے واضح کیا ہے کہ ’ریاست کے علاوہ کسی بھی ادارے یا گروہ کو طاقت استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پاکستان کسی مذہبی، صوبائی، قبائلی، لسانی یا نسلی تفریق کے بغیر تمام پاکستانیوں کا ہے‘ ۔ کہا جاسکتا ہے کہ جنرل صاحب نے ملکی پالیسی بیان کرتے ہوئے کوزے میں دریا بند کر دیا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی انہیں اس بات کی وضاحت بھی کرنا ہوگی کہ پاکستان میں غیر ریاستی عناصر کو کس بنیاد پر کن لوگوں یا اداروں نے سرکش ہونے، عدالتیں لگانے اور فیصلے صادر کرنے کا اختیار دیا تھا۔

جی ایچ کیو میں علما و مشائخ سے باتیں کرتے ہوئے پاک فوج کے سربراہ نے افغانستان سے آ کر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے والے عناصر کا بھی ذکر کیا اور امید ظاہر کی کہ افغانستان اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لیے سخت اقدامات کرے گا۔ کسی بھی ملک کو ہمسایہ ملک میں دہشت گردی کے فروغ میں کردار ادا نہیں کرنا چاہیے اور اس کی روک تھام کے لیے مناسب اور ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔ تاہم کیا پاکستان کا دامن اس حوالے سے بے داغ ہے کہ وہ اب دوسروں سے امداد کا خواہاں ہے؟

معاشرے میں تشدد کے فروغ کا مزاج البتہ کسی دوسرے ملک سے درآمد نہیں ہوا بلکہ ایک خاص حکمت عملی کے ذریعے ملک میں مذہبی شدت پسندی کو فروغ دیا گیا اور پھر اس کے بطن سے دہشت گردی کے عفریت نے جنم لیا۔ اب یک بیک اس کی ذمہ داری نہ تو کسی دوسرے ملک پر ڈال کر نجات حاصل کی جا سکتی ہے اور نہ ہی علما و مشائخ کے فتوؤں کی بنیاد پر ملک میں امن و امان عام کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ریاست کو اسی تندہی سے انتہاپسندی کا خاتمہ کرنے کے لیے اقدام کرنے ہوں گے، جیسے عالمی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے جہادی کلچر متعارف کروایا گیا تھا۔ اور ملک بھر کے دینی مدرسوں سے افغانستان میں جہاد کے لیے نوجوان تیار کرنے کا کام شروع ہوا تھا۔ پاکستان اس وقت، درحقیقت وہی کانٹے چننے پر مجبور ہے جو اس نے خود ہی اپنے راستے میں بچھائے ہیں۔

حکومت اور پاک فوج اس وقت افغانستان کو پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے۔ اسی مقصد سے لاکھوں افغانوں کو ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ البتہ دہائیوں پر محیط پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے اچانک افغان حکومت اور ملک میں غیر قانونی طور سے قیام پذیر افغان باشندوں کو پاکستان میں دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دے کر مسئلہ کا حل تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ جن افغان شہریوں کو غیر قانونی قرار دے کر ملک بدر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ان میں سے اکثریت نے تو شاید افغانستان کا سفر ہی نہ کیا ہو۔ چالیس سال پہلے اس ملک میں آنے والے افغان شہریوں کی نسلیں اسی ملک میں پیدا ہو کر پروان چڑھی ہیں لیکن دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے نام پر اب ان نسلوں کو ’بے وطن‘ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

حکومت کو سنجیدگی سے اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ دہائیوں سے آباد لوگوں کو دربدر کرنے سے نفرت میں اضافہ ہو گا، انتہاپسندوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور ایسے عام شہری جن کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا ، وہ بھی ذاتی المیہ کی بنیاد پر ایسے عناصر کو جائز سمجھنے کی غلطی کا ارتکاب کرنے لگیں گے۔ گویا ایک بڑا مسئلہ حل کرنے کے لئے عجلت میں کیا گیا ایک فیصلہ زیادہ الجھنوں اور پیچیدگیوں کا سبب بن سکتا ہے۔

بدقسمتی سے یہ فیصلہ ملک کی نگران حکومت کر رہی ہے حالانکہ اسے فروری میں انتخابات کے بعد رخصت ہوجانا ہے اور اس کے غلط اور بے ڈھنگے فیصلوں کا بار نئی منتخب حکومت کو اٹھانا پڑے گا۔ ایسے میں مناسب تو یہی ہوتا کہ ملک میں منتخب حکومت کے قیام کا انتظار کر لیا جاتا اور پھر عوام کے منتخب نمائندے عسکری اداروں کے مشورے سے کوئی ایسی حکمت عملی تیار کرتے جس سے سانپ بھی مر جاتا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹتی۔ 17 لاکھ افغان شہریوں کو تو اب بھی شاید ملک سے نہ نکالا جا سکے لیکن جلد بازی میں کیے جانے والے اقدامات اور نگران وزیر اعظم کے اشتعال انگیز بیانات سے دو ہمسایہ ملکوں اور ان کے شہریوں کے درمیان ایسی خلیج حائل ہو سکتی ہے جسے پر کرنا شاید ممکن نہیں رہے گا۔

نگران حکومت کے دور میں دہشت گردی کا سارا الزام افغانستان کے علاوہ یہاں غیر قانونی طور سے آباد افغان شہریوں پر عائد کرنے سے اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ یہ فیصلے فوجی قیادت کر رہی ہے۔ نگران حکومت تو محض حکم بجا لا رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ عسکری اداروں کی طرف سے نگران حکومت کے ذریعے افغان شہریوں کی ملک بدری کا فیصلہ کروانے کی ایک وجہ یہ ہو کہ بعد میں جمہوری حکومت اس معاملہ پر فیصلہ کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی اجازت لینے اور ایوان میں مباحث کروانے پر مجبور ہوگی جس کی وجہ سے یہ اہم کام تعطل کا شکار ہو جائے گا۔

لیکن ماضی کا تجربہ اس سوچ کی نفی کرتا ہے۔ ماضی میں پاکستان کا جہادی کردار متعین کرتے ہوئے کسی منتخب ادارے سے مشورہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی تھی۔ بلکہ درحقیقت پہلی افغان جنگ سابق فوجی آمر جنرل ضیا کے دور میں شروع ہوئی اور پاکستان نے کمیونزم کے خلاف امریکہ کا آلہ کار بننا قبول کر لیا۔ اسی طرح نائن الیون کے بعد افغانستان میں دہشتگردوں کے خاتمہ کے لیے شروع ہونے والی امریکی جنگ کا حصہ بننے کا فیصلہ بھی ایک فوجی حکمران جنرل پرویزمشرف نے ہی کیا تھا۔ اس بیچ برسر اقتدار آنے والی جمہوری حکومتیں کمزور اور بے اختیار تھیں۔ یا تو انہیں ایک خاص ایجنڈے کے ذریعے اقتدار میں لایا گیا تھا یا فوجی قیادت نے اقتدار سنبھالنے والے سول حکمرانوں پر واضح کر دیا تھا کہ انہیں کن امور پر کوئی فیصلہ کرنے کا ’حق‘ حاصل نہیں ہے۔

ملک میں جنگ جوئی کا ایک خاص مزاج تیار کرنے سے لے کر جہادی گروہوں کے لیے رضاکار پیدا کرنے تک کا سارا عمل فوج کی نگرانی میں انجام پاتا رہا ہے۔ اس دوران میں ہمسایہ ملک میں سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے ایسے عسکری گروہوں کی حوصلہ افزائی کی گئی جنہیں ریاست کے ’اثاثے‘ قرار دیا گیا۔ مقصد چونکہ کشمیر کو فتح کرنا یا بھارتی حکومت کو زچ کرنا تھا، اس لیے ان عناصر کو ملک بھر میں مذہبی شدت پسندی پھیلانے کا پورا موقع دستیاب رہا۔

یہ گروہ اس حد تک طاقت ور ہوچکے تھے کہ وہ ریاست کو بھی چیلنج کرنے سے نہیں چوکتے تھے۔ 2007 میں اسلام آباد کی لال مسجد سے ابھرنے والی بغاوت اس کا ایک معمولی سا نمونہ تھا۔ اس محاصرے میں ایک سو سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے جن میں ایک درجن فوجی افسر و جوان شامل تھے۔ اس کے باوجود ایک مسجد سے ریاست کو للکارنے والے مولانا عبدالعزیز کو نہ تو سزا دلوائی جا سکی اور نہ ہی ان کے زہریلے دانت نکالنے کا اہتمام ہوسکا۔ اب بھی وہ جب چاہے طالب علموں اور حامیوں کو ساتھ ملا کر حکومت وقت کو للکارنے پر آمادہ رہتا ہے۔

پاکستانی معاشرہ ہمیشہ سے اس حد تک شدت پسندی کا شکار نہیں تھا کہ کسی کو کوئی معقول بات کرنے کا حوصلہ ہی نہ ہو۔ یہ ایک وسیع المشرب معاشرہ تھا جہاں ہر عقیدے، فرقے اور سوچ کو گوارا کیا جاتا تھا۔ جہاں ہر موضوع پر مکالمہ کیا جاسکتا تھا اور کسی مسئلہ کے ہر پہلو کو زیر بحث لایا جاسکتا تھا۔ لیکن یہ سپیس ایک خاص ریاستی حکمت عملی کے ذریعے آہستہ آہستہ کم کی گئی۔ اب سول و فوجی قیادت کو بار بار اعلان کرنا پڑتا ہے کہ ’پاکستان کسی مذہبی، صوبائی، قبائلی، لسانی، نسلی، علاقائی یا دیگر امتیاز کے تمام پاکستانیوں کا ہے‘ ۔

یعنی ہر عقیدہ اور مسلک سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے کا احترام کریں گے اور ایک دوسرے کے حق عبادت ہی نہیں بلکہ حق زندگی کا بھی احترام کریں گے۔ لیکن گزشتہ چند دہائیوں کے دوران میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ مذہب کے نام پر انتشار و افراق پھیلانے والے عناصر طاقت ور ہوتے چلے گئے۔ اور ریاست کی بجائے یہ حق گروہوں یا افراد نے اپنے ہاتھ میں لے لیا کہ کسی شخص کو بدعقیدہ یا توہین کا مرتکب قرار دے کر ہلاک کر دیا جائے۔

ریاست ایسی لاقانونیت میں ملوث افراد کی مناسب سرزنش کرنے سے قاصر رہی ہے بلکہ موقع ملنے پر انتہا پسند عناصر کو بعض خفیہ سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ جب ریاست خود مذہب کی آڑ میں لاقانونیت کا چلن قبول کرے گی تو پھر علما و مشائخ سے ایک ملاقات کے ذریعے اس کا تدارک کیوں کر ممکن ہو گا؟

ریاست کے اس مشکوک اور افسوسناک طرز عمل کا چرچا گزشتہ دنوں سپریم کورٹ میں بھی سننے میں آیا۔ 2007 کے فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت اور عمل درآمد کے معاملہ میں سپریم کورٹ نے اپنے عبوری حکم میں لکھا ہے کہ ’اگر اس دھرنا کے ذمہ داروں کو بروقت سزا دی جاتی اور ملک میں قانون کی بالادستی کا اصول استوار کیا جاتا تو 9 مئی کا سانحہ بھی رونما نہ ہوتا‘ ۔ البتہ حکام نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل کرنے کی بجائے اسے سرد خانہ میں ڈال دیا۔

متعدد سرکاری محکموں اور اداروں نے نظر ثانی کی درخواستیں دائر کر دیں اور انتہاپسندی کی حوصلہ افزائی کرنے والے عناصر کو کھلی چھٹی دے دی گئی تاکہ وہ آنے والے سالوں میں مزید کھل کھیلیں۔ سپریم کورٹ کے حکم پر اب حکومت نے ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا ہے تاکہ فیض آباد دھرنا کے محرکات اور اس میں کردار ادا کرنے والے عناصر کا سراغ لگایا جا سکے۔

آرمی چیف ملک میں گروہی تشدد اور عمومی شدت پسندی کے خاتمہ کی امید کر رہے ہیں۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے فیض آباد دھرنا جیسے واقعات کے اصل مجرموں کو سامنے لانا اور انہیں ان کے جرم کی سزا دینا اہم ہو سکتا ہے۔ پاک فوج کے سربراہ کے طور پر وہ اس حوالے سے بننے والے کمیشن کا کام آسان کر سکتے ہیں۔ جن سابق فوجی افسروں پر سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے اس شرپسندی کا اہتمام کرنے کا الزام ہے، انہیں تحفظ فراہم کرنے کی بجائے قانون کے حوالے کیا جائے۔ اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہوسکا تو ریاست کیسے مکمل طور سے طاقت ور اور با اختیار ہو سکے گی؟بشکریہ ہم سب نیوز

 

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …