(تحریر: عادل فراز)
غزہ پوری طرح تباہ ہوچکا ہے۔ ہر طرف وحشت کا ننگا ناچ ہے۔ ننھے مُنے بچوں کی خون آلود لاشیں، مائوں کی دل خراش چیخیں، شہیدوں کے جنازے اور مسلسل اسرائیل کی بمباری کی جو روح فرسا ویڈیوز اور تصویریں سامنے آرہی ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غزہ میں کشتوں کے پشتے لگ گئے ہیں اور انسانیت پامال ہوچکی ہے۔ مظلوم اور بے گناہ فلسطینیوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ صہیونی فوجیں غزہ میں داخل ہوچکی ہیں۔ ان کے مذہبی پیشوا مفتوحہ علاقوں میں مذہبی رسوم ادا کرکے عربوں کا منہ چڑھا رہے ہیں۔ صہیونی فوجیں لاشوں پر رقص کر رہی ہیں۔ اسپتال، مسجدیں، کلیسا اور رفاہی عمارتیں زمیں بوس کر دی گئی ہیں۔ طبی سازوسامان کی قلت کی بنا پر زخمیوں کا علاج نہیں ہو پا رہا ہے۔ الشفا اسپتال پر ہوئے حملے میں زیر علاج تقریباً تمام افراد کی موت ہوگئی ہے۔ حتیٰ کہ پناہ گزین کیمپوں پر بھی حملے کئے گئے۔ جو لوگ غزہ سے نقل مکانی کر رہے ہیں، انہیں بھی ہدف بنایا جا رہا ہے۔ انسانی امداد کے راستے پوری طرح نہیں کھلے ہیں۔ مصر اسرائیل کے سامنے بے بس نظر آرہا ہے اور مصر ہی نہیں بلکہ تمام مسلمان حکومتیں وحشت ناک جنگ کا تماشا دیکھ رہی ہیں۔
اسرائیل کو اب یہ یقین ہو چلا ہے کہ مسلمان ملک غزہ کی جنگ میں کسی طرح کا تعاون نہیں کریں گے۔ اس لئے اس نے غزہ پر وحشیانہ حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ او آئی سی اجلاس میں بھی تمام مسلمان ممالک کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ یہ اجلاس بھی مذمتی قرارداد، جنگ بندی اور غزہ تک انسانی امداد پہنچانے کے مطالبے پر ختم ہوگیا۔ دنیا بھر کے مسلمان یہ توقع کر رہے تھے کہ شاید اس اجلاس میں مسلمان ملک اسرائیل کے خلاف کوئی واضح اور سخت موقف اختیار کریں گے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ عرب حکمرانوں کی مجبوری یہ ہے کہ ان کی معیشت کا سارا انحصار یورپ پر ہے۔ دفاعی نظام امریکہ کے ہاتھوں میں ہے۔ حتیٰ کہ ان کے داخلی معاملات بھی ان کے اختیار میں نہیں ہیں۔ اس میں سعودی عرب سرفہرست ہے۔ اس لئے عرب حکمران کبھی اسرائیل پر حملے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس طرح ان کی حکومت خطرے میں آجائے گی اور داخلی نظام پر فوراً امریکی فوجیں مسلط ہو جائیں گی۔
ترکی جو نشاۃ ثانیہ کی تلاش میں ہے، خلافت عثمانیہ کے احیا کے لئے اس کی کوششیں "ارتغرل غازی” اور "کورولش عثمان” جیسے سیریل بنانے سے آگے نہیں بڑھ سکیں۔ اردوغان نے اسرائیل کو دہشت گرد قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے، لیکن یہ مطالبہ فقط عالم اسلام کو دھوکہ دینے کے لئے ہے۔ ترکی ناٹو کا حصہ ہے، اس لئے وہ ناٹو ممالک کی پالیسی کے خلاف نہیں جاسکتا۔ اس کے یہاں امریکی ائیربیس موجود ہے اور امریکی فوجیں بھی۔ اس لئے اردوغان بخوبی جانتے ہیں کہ اسرائیل کے خلاف جنگ کے اعلان کا نقصان انہیں براہ راست پہنچے گا۔ ترکی نے شام اور عراق پر حملے میں امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ آج تک ترک فوجیں شام میں موجود ہیں۔ داعش کے خاتمے کے بہانے بشارالاسد کی حکومت کو ختم کرنے کا خواب دیکھنے والے اردوغان اسرائیل پر حملے کا خواب تک نہیں دیکھ سکتے۔ کیا ترکی اسرائیل کو دہشت گرد ملک قرار دے کر اس پر حملہ کرنے کی جرأت کرسکتا ہے؟ ہرگز نہیں! یہ مطالبہ صرف ایک چھلاوا ہے، جسے ترکی نوازوں کو سمجھنا چاہیئے۔
ظاہری طور پر ایران بھی اس جنگ سے ابھی تک دور ہے۔ اس کی بنیادی وجہ حماس کی غیر مناسب حکمت عملی اور اتحادی طاقتوں کی عدم اعتمادی ہے۔ حماس نے آپریش "طوفان الاقصیٰ” سے پہلے ایران سمیت دیگر اتحادی تنظیموں کو باخبر نہیں کیا۔ ظاہر ہے کہ ایران اور اس کے زیر اثر تمام مقاومتی تنظیمیں حماس کی علی الاعلان حمایت کرتی رہی ہیں، لیکن "طوفان الاقصیٰ” کے خود مختار فیصلے نے ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے، جیسا کہ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں کہا تھا۔ "طوفان الاقصیٰ” کے بعد لبنان کی سرحدوں پر کشیدگی بڑھ گئی تھی، کیونکہ اسرائیل کو پورا یقین تھا کہ "طوفان الاقصیٰ” ایران اور حزب اللہ کی ایما پر کیا گیا آپریشن ہے، جبکہ ایران اور حزب اللہ نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے اسے خالص فلسطینیوں کے آپریشن سے تعبیر کیا تھا۔ اگر آپریشن "طوفان الاقصیٰ” ایران اور اتحادی مقاومتی تنظیموں کی ایما پر کیا گیا ہوتا تو اس جنگ کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔
اس کے باوجود حزب اللہ اور دیگر مقاومتی تنظیموں نے غزہ کو تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ حزب اللہ کے درجنوں جوان اب تک اسرائیلی حملوں میں مارے جاچکے ہیں۔ انصاراللہ یمن نے حماس کی حمایت کا کھلا اعلان کیا ہے۔حتیٰ کہ یمن کی فوج نے بھی اسرائیل پر میزائل داغے ہیں۔ دوسری طرف عراق کی مقاومتی تنظیموں نے بھی فلسطین کی حمایت کا اعلان کیا اور عراقی جوان لبنانی سرحدوں پر حزب اللہ کے ساتھ میدان میں موجود ہیں۔ اب سوال ان لوگوں سے کیا جانا چاہیئے، جو یہ الزامات عائد کر رہے ہیں کہ ایران نے فلسطینیوں کو ورغلا کر موت کے کنویں میں دھکیل دیا ہے۔ آیا فلسطینی کاز کی حمایت تنہا ایران کا فریضہ ہے۔؟ اس پورے منظرنامے میں عرب ملک کہاں ہیں۔؟ عرب ملکوں نے جنگ بندی اور انسانی امداد کے راستے کھلوانے میں کونسا کلیدی کردار ادا کیا ہے۔؟ اگر عرب ملک اسرائیل کے خلاف متحد ہوکر میدان عمل میں اترتے تو یہ جنگ بہت پہلے ختم ہوچکی ہوتی۔
مصر جیسی طاقت رفح کراسنگ کو پوری طرح کھلوانے میں ناکام ہے۔ ایرانی امداد کو اسرائیل کی اجازت نہ ملنے کے سبب مصر نے معذرت کے ساتھ واپس بھیج دیا ہے۔ اگر عربوں نے غیرت اور حمیت کا مظاہرہ کیا ہوتا تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے عہد اقتدار میں فلسطین مخالف "صدی معاہدہ” کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں عرب ملکوں کا بڑا دخل تھا۔ اس کے بعد یروشلم کو اسرائیل کا پایۂ تخت تسلیم کرلیا گیا، یہ الگ بات کہ بعض عرب ملکوں نے اپنی ساکھ بچانے کے لئے ظاہراً اس فیصلے کو قبول نہیں کیا۔ مسلمان ملکوں سے بہتر تو وہ غیر مسلم ہیں، جو امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں میں اپنی حکومتوں کی بے حسی اور آمریت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ یہودیوں نے صہیونی حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مظلوم فلسطینیوں کی بھرپور حمایت کی۔
انہوں نے احتجاج کے دوران جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ "ہمارے نام پر بے گناہوں کی نسل کشی کو روکا جائے”، کیونکہ صہیونی غزہ میں جو کچھ کر رہے ہیں، اس سے پوری دنیا میں یہودیت بدنام ہو رہی ہے، بلکہ ان کو عدم تحفظ کا احساس بھی ستا رہا ہے۔ مسلمان ملکوں میں احتجاج ضرور ہوئے، مگر کیا وہ احتجاج اتنے موثر تھے کہ وہ اپنی حکومتوں کو غزہ کی حمایت پر آمادہ کر پاتے۔؟ اگر ایسا ہوتا تو مسلمان ملک او آئی سی اجلاس میں کسی حتمی نتیجے تک پہنچتے اور غزہ کی علی الاعلان حمایت کا اعلان کرتے، مگر ایسا ممکن نہیں تھا، کیونکہ عرب حکمرانوں پر استعماری طاقتوں کا ان کی عوام سے زیادہ دبائو ہے۔ اگر وہ اسرائیل کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے تو ان کے نیچے سے اقتدار کی کرسی کھینچ لی جاتی۔ عربوں کی حکومتیں مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور ہیں، اس لئے ان سے زیادہ توقع رکھنا اسلامی حمیت کے ساتھ زیادتی ہے۔
دوسری طرف اقوام متحدہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی قرارداد کو منظوری مل گئی ہے۔ البتہ امریکہ، برطانیہ اور روس نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اقوام متحدہ میں جنگ بندی کے لئے اس سے پہلے بھی پیش رفت ہوئی ہے، لیکن ہر بار امریکہ نے اسے ویٹو کر دیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ جنگ بندی کے لئے جو شرائط رکھی گئی ہیں، فریقین تسلیم کرتے ہیں یا نہیں۔ کیونکہ اسرائیل جنگ بندی کی اپیلوں کو مسلسل مسترد کرتا رہا ہے اور اس میں اسے امریکہ کی پوری حمایت حاصل ہے۔ اگر امریکہ جنگ بندی کے لئے سنجیدہ کوشش کرتا تو جنگ اس خوف ناک مرحلے میں داخل نہیں ہوتی۔ غزہ پر اسرائیلی قبضے کے بعد مسلمان ملکوں کو اپنی حکمت عملی اور وجود کے بارے میں دوبارہ غور کرنا ہوگا، کیونکہ غزہ پر قبضے کے بعد استعماری طاقتیں اپنا دوسرا ہدف تلاش کریں گی۔ اگر عراق اور افغانستان کی بربادی کے وقت مسلمان ملک متحد ہو جاتے تو آج غزہ پر اسرائیل اس طرح حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔
ناٹو کے مقابلے میں متبادل فوجی اتحاد کی دنیا کو سخت ضرورت ہے۔ اگر ناٹو کے خلاف متحدہ فوجی محاذ وجود میں نہیں آیا تو بہت جلد مشرق وسطیٰ میں امریکی پرچم لہراتے نظر آئیں گے۔ اس جنگ کے بعد کوئی بھی اگلا ہدف ہوسکتا ہے۔ عربوں کو سوچنا ہوگا کہ بزدلوں اور کمزوروں کی کوئی زمین نہیں ہوتی۔ اگر وہ خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوئے تو انہیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ اس وقت مشرق وسطیٰ میں کئی مقاومتی محاذ موجود ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عرب ملک ان مقاومتی محاذوں کے ساتھ مخلصانہ اتحاد قائم کریں۔ دفاعی اور داخلی نظام کا اختیار اپنی فوجوں کے سپرد کریں۔ امریکی فوجوں کو اپنے سرحدوں سے باہر نکال کر اپنی عربی حمیت اور شجاعت کا مظاہرہ کریں۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو غزہ کے بعد ہم دوسری خوفناک تباہی کا منظر بہت جلد دیکھیں گے۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔