غزہ میں ڈیڑھ ماہ سے جاری اسرائیلی درندگی ہر لمحہ بڑھ رہی ہے، اسپتال، مساجد، تعلیمی ادارے اور رہائشی عمارات سمیت کچھ بھی اس ناجائز اور دہشت گرد ریاست کی وحشیانہ بمباری سے محفوظ نہیں۔ اس کے نتیجے میں جانی نقصان بارہ ہزار سے تجاوز کرچکا ہے اوربیشتر علاقے کھنڈر بن گئے ہیں لیکن اس سفاکی کو روکنے کے معاملے میں اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ سمیت عالمی برادری کا کردار اب تک زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھا ہے حالانکہ اقوام متحدہ کے خود اپنے متعدد کارکن اسرائیلی بمباری کا نشانہ بن چکے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی کے مطابق اسرائیلی فوج نے گزشتہ روز جبالیہ کیمپ میں اقوام متحدہ کے اسکول پر فضائی حملہ کیا جس سے 200 فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔ اسرائیلی فوج نے جبالیہ کیمپ میں رہائشی عمارت پر بھی حملہ کیا جس کے باعث 19 بچوں سمیت ایک ہی خاندان کے 32 افراد شہید ہوگئے۔
غزہ میں جار ی موت کے اس رقص کی تفصیلات سے ذرائع ابلاغ بھرے پڑے ہیں لیکن اصل ضرورت اسرائیل کو فی الفور اس درندگی سے روکنے اور فوری جنگ بندی کی ہے۔اس تناظر میں ایک اہم خبر یہ ہے کہ پاکستان نے17 ممالک کے ایک گروپ کی جانب سے جس میں الجزائر، بولیویا، چین، کیوبا، مصر، اریٹیریا، ایران، سعودی عرب، لیبیا، نکاراگوا، نائیجیریا، روس، سری لنکا، شام، وینزویلا اور زمبابوے شامل ہیں ،اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر مشرق وسطی کے تنازعات کے حل کیلئے ایک طریقہ کار وضع کرے تاکہ غزہ میں اسرائیلی فوج کی جانب سے مسلسل بمباری کا نشانہ بننے والے فلسطینی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے اور تنازع کے پرامن حل کی کوششیں تیز کی جاسکیں۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایک غیر رسمی اجلاس میں کہاکہ غزہ کے لوگ اقوام متحدہ کی طرف دیکھ رہے ہیں تاکہ انہیں محصور علاقے میں مزید اموات اور تباہی سے بچایا جا سکے۔
پاکستانی سفیر نے مجوزہ میکانزم کے حوالے سے واضح کیا کہ یہ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق قائم کیا جائے۔ انہوں نے غزہ کی پٹی میں شہریوں کیلئے ضروری سامان اور خدمات کی فوری فراہمی بشمول پانی، خوراک، طبی سامان، ایندھن اور بجلی کی فوری ترسیل، امداد کی ترسیل کو آسان بنانے کے لیے انسانی ہمدردی کی راہداریوں کے قیام پر زوردیا۔بلاشبہ اسرائیل نے غزہ کی آبادی کو برسوں سے محصور رکھ کر اوررہائشی علاقوں کو وحشیانہ بمباری کا ہدف بناکر بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی اور بدترین جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے اس لیے عالمی برادری کو بلاتاخیر بین الاقوامی قانون کے مطابق اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ اگر عراق پر صرف مہلک ہتھیاروں کے شبہ میں فوج کشی کی جاسکتی ہے، ایران پر اسرائیل جیسے کسی جنگی جرم اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے بغیر اقتصادی اور دیگر پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں ، افغانستان کے اربوں ڈالر کسی جرم کے بغیر امریکہ میں منجمد رکھے جاسکتے ہیں تواسرائیل پر کھلے جنگی جرائم کے باوجود پابندیاں عائد کیوں نہیں کی جاتیں؟ یہ صورتحال واضح طور پر مغربی طاقتوں خصوصاً امریکی مقتدرہ کے دوہرے معیارات کی عکاس ہے۔
اسلامی تعاون تنظیم نے بھی اپنے حالیہ سربراہی اجلاس میں اسرائیل کے خلاف مؤثر اقدامات کے حوالے سے پوری مسلم دنیا اور انصاف پسند لوگوں کو سخت مایوس کیا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ او آئی سی بھی اسرائیلی ہٹ دھرمی کے پیش نظر حالیہ سربراہی اجلاس میں پیش کی گئی اکثریتی رائے کو فوقیت دیتے ہوئے اسرائیل کو تیل کی فراہمی اور دیگر پابندیوں کی تجاویز پر فوری عمل درآمد شروع کرے اور عالمی برادری تنازع فلسطین کے پائیدار اور متفقہ دوریاستی حل کو کم سے کم مدت میں یقینی بنائے۔بشکریہ جنگ نیوز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔